پاکستان، امریکا کو آگے بڑھنا چاہیے اور افغانستان میں مل کر کام کرنا چاہیے، معید یوسف

27 اگست 2021
میں پاکستان کے لیے کسی ہمدردی کا نہیں کہہ رہا، میں امریکا کے یکسر اپنے قومی مفادات کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، مشیر قومی سلامتی - فائل فوٹو:اے ایف پی
میں پاکستان کے لیے کسی ہمدردی کا نہیں کہہ رہا، میں امریکا کے یکسر اپنے قومی مفادات کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، مشیر قومی سلامتی - فائل فوٹو:اے ایف پی

واشنگٹن: وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا ہے کہ امریکا اور پاکستان، افغانستان میں مل کر کام کرنے میں مشترکہ دلچسپی رکھتے ہیں تاہم تعاون کو ماضی کے مسائل سے آگے بڑھاتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کے جوش روگن کے کالم کے لیے ایک فون انٹرویو میں معید یوسف نے کہا کہ افغان عدم استحکام پاکستان کے لیے مزید دہشت گردی، پناہ گزینوں اور معاشی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

اس کالم کی سرخی یہ تھی 'پاکستان ایک اتحادی کا برتاؤ چاہتا ہے، قربانی کا بکرا نہیں'۔

کالم نگار جوش روگن نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے بجائے امریکی میڈیا کی جانب سے کئی سالوں سے طالبان کی مبینہ حمایت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

انہوں نے واشنگٹن کو تجویز دی کہ 'پاکستان کی تعاون کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کریں'۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا میں سہولت کاری پر یورپی کونسل کے سربراہ پاکستان کے شکر گزار

معید یوسف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'اس وقت ہم جس صورت حال میں ہیں امریکا اور پاکستان کے مفادات کیسے ہم آہنگ نہیں ہیں'۔

قومی سلامتی کے مشیر نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ 'میں پاکستان کے لیے کسی ہمدردی کا نہیں کہہ رہا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں امریکا کے یکسر اپنے قومی مفادات کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، پاکستان جیسے بڑے اور اہم ملک کو اپنے سے دور کر کے امریکا کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟'۔

جوش روگن نے نوٹ کیا کہ پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں تاہم دوسری طرف اسلام آباد میں حکام نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان نے گیارہ ستمبر کے بعد سے شدت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں فوج اہلکار اور عوام کی جانیں کھوئی ہیں۔

معید یوسف نے کہا کہ 'پاکستان خود اس صورتحال سے متاثر ہے، امریکا پر گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اس کے باوجود ہم نے اس امریکا کا بھرپورساتھ دیا اور پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم ماضی قطع نظر ہمیں اس ضمن میں کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم شراکت داروں کے طور پر کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں اس لیے کہ خطے میں استحکام کے حوالے سے دونوں ملکوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتا'۔

مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت نے اپنی نااہلی، بدعنوانی اور عدم مقبولیت کی پردہ پوشی کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا۔

معید یوسف نے کہا کہ امریکا کی درخواست پر پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا پھر پاکستان کو ان مذاکرات سے علیحدہ کر دیا گیا اور اب نتائج کی ذمہ داری اس پر عائد کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کو بہت جلد ہماری حکومت چلانے کی قابلیت پتا چل جائے گی، طالبان رہنما

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان نے افغانستان کی قومی فوج سے کہا تھا کہ وہ نہ لڑیں؟ کیا افغان صدر اشرف غنی کو ملک چھوڑنے کے لیے پاکستان نے کہا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ 'افغان ریاست کا شیرازہ ایک ہفتے میں بکھر گیا اور جب مغربی ممالک کی طرف سے اپنے ٹیکس دہندگان کو صورتحال سے آگاہ کرنے کا وقت آیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ یا تو کوئی جھوٹ بول رہا تھا، یا غلط بیانی کر رہا تھا، یا حقائق کے بارے میں غلط فہمی کا شکار تھا'۔

پاکستان بھی یہ چاہتا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی سفارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کرے اور طالبان کے ساتھ سفارتی روابط کا طریقہ وضع کرے، امریکا کو نئے حکمرانوں کو سزا دینے کے لئے افغانستان کوتنہا نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب جب کہ سارا ملک طالبان کے پاس ہے انہیں پاکستان کی حکومت کی اتنی ضرورت بھی نہیں، معاونت اوراعتراف کو بروئے کار لانا ہے، یہ کون کر سکتا ہے؟ پاکستان سے زیادہ مغربی ممالک افغانستان میں اسکو موثر انداز میں بروئے کار لانے کی پوزیشن میں ہیں'۔

افغانستان کی صورتحال پر بی بی سی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ پاکستان نے اب تک 7 ہزار سے زائد افراد کو کابل سے نکالنے میں مدد کی ہے اور زمینی راستے سے آنے والوں کو آمد پر ویزا جاری کر رہا ہے۔

ڈاکٹر معید یوسف نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی صورتحال کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے کیونکہ وہ خود اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں