پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر کام جاری ہے، وفاقی وزیر

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
وزیر انسانی حقوق  کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بل پارلیمانی کمیٹی سے منظور ہوا—فائل فوٹو: ایس ایس آئی آئی
وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بل پارلیمانی کمیٹی سے منظور ہوا—فائل فوٹو: ایس ایس آئی آئی

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستان جبری گمشدگی کو جرم بنانے کے عزم میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ 'جمہوریت میں اس طرح اقدامات ناقابل قبول' ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں منائے جانے والے عالمی یومِ گمشدگی (انٹر نیشنل ڈے آف دی ڈس اپیرنس) کے موقع پر انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے گزشتہ ہفتے جبری گمشدگی پر ایک بل منظور کیا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ کسی حکومت نے جبری گمشدگی پر اقدام نہیں اٹھایا اور وقت ضائع ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بل پارلیمانی کمیٹی سے منظور ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:‘جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے مسودہ تیار’

انہوں نے بتایا کہ وزارت انسانی حقوق کے پہلے اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین نے شرکت کی تھی جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد یہ بل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب تھا لہٰذا یہ کہنا کہ کسی کو اس کے مواد کا علم نہیں مضحکہ خیز ہے، ایوان میں اور کمیٹی میں کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتا افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی تھی جنہوں نے اپنے گمشدہ افراد کی تفصیلات فراہم کی تھیں، ان میں سے کچھ واپس آچکے ہیں جبکہ کچھ کا سراغ لگالیا گیا ہے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ جنجوعہ سے بھی ملاقات کی تھی۔

وفاقی وزیر نے اس مسئلے پر ردِ عمل نہ دینے پر سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 حکومتوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے وزرا نے جبری گمشدگی کو تسلیم تک نہیں کیا تھا جبکہ اہلِ خانہ سے ملاقات تو دور کی بات ہے۔

مزید پڑھیں:جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے تعین میں لاپتا افراد کمیشن ناکام رہا، آئی سی جے

خیال رہے کہ جون میں پی پی پی نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل اس خطرے کو ختم نہیں کرے گا کیونکہ اس پر مزید غور و فکر اور ترمیم کی ضرورت ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر کا نقطہ نظر تھا کہ جبری گمشدگیوں کو علیحدہ خود مختار جرم سمجھا جانا چاہیے اور اس کی شکایات، مجرموں کے احتساب اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ فراہم کرنے کے لیے الگ قانونی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترمیم شدہ بل یہ ضروریات پوری نہیں کرتا۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے بل میں جلد بازی کرنے پر خبردار بھی کیا تھا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی میں مدعو کرنے یا عوامی سماعت کے انعقاد پر زور دیا تھا۔

قبل ازیں 19 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ وفاقی دارالحکومت میں ’جبری گمشدگیوں‘ کے ذمہ دار ہیں ساتھ ہی عدالت نے 2015 سے اس عہدے پر فائز وزرائے اعظم کی فہرست بھی طلب کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں