طورخم پر امیگریشن کے متعدد مراحل افغان شہریوں کیلئے دردِ سر بن گئے

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
انہوں نے کہا کہ اگر عملے کا کوئی رکن کرپشن میں ملوث پایا گیا تو اسے فوری طور پر رخصت کردیا جائے گا---فائل فوٹو: ڈان
انہوں نے کہا کہ اگر عملے کا کوئی رکن کرپشن میں ملوث پایا گیا تو اسے فوری طور پر رخصت کردیا جائے گا---فائل فوٹو: ڈان

خیبر: افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد مایوسی کا شکار افغان، جو اپنے ملک میں جلد اور ہموار واپسی کے خواہاں ہیں، اب ان کو امیگریشن کے عمل کے کئی مراحل کا سامنا ہے جو طورخم بارڈر پر کم از کم تین مختلف محکموں کے زیر انتظام ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ واپس آنے والے افغان باشندوں کے قانونی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال اور انہیں ان کے وطن جانے کی اجازت دینا نہ صرف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، نادرا، نیشنل لوجسٹک سیل اور تین مختلف محکموں کے عملے کے درمیان ایک 'متنازع معاملہ' بن گیا ہے بلکہ یہ ان کے لیے ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

مزید پڑھیں: شہریوں کی وطن واپسی کا تنازع، افغانستان نے چمن سرحد بند کردی

انہوں نے بتایا کہ واپس جانے والے افغان مذکورہ تنیوں محمکوں کے افسران کو بڑی رقم ادا کرنے پر مجبور ہیں اور وہ یہ رقم افسران کے مقامی ایجنٹس کے ذریعے ادا کرتے ہیں تاکہ افغانستان واپس جانے کی اجازت مل جائے۔

امیگریشن دفاتر میں تعینات عہدیداروں نے کہا کہ یہ ایف آئی اے کی واحد ذمہ داری ہے کہ وہ تورخم سمیت کسی بھی سرحد پر کسی بھی غیر ملکی کے سفری دستاویزات کو مکمل طور پر چیک اور کلیئر کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ایف آئی اے کی جانب سے کلیئر ہونے کے بعد کسی اور کے پاس یہ اختیار یا قانونی اجازت نہیں تھی کہ وہ واپس جانے والے افغان یا کسی دوسرے غیر ملکی شہری کے دستاویزات چیک کرے۔

انہوں نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے جب سے نیشنل لوجسٹک سیل (این ایل سی) نے طورخم پر اپنا آپریشن شروع کیا ہے اس کے عملے کے بارے میں شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہ واپس آنے والے افغانوں کو روک رہے ہیں جنہیں امیگریشن عملہ پہلے ہی کلیئر کر چکا ہے اور پھر بارڈر کراسنگ کے لیے ایک ٹوکن جاری کرچکا۔

یہ بھی پڑھیں: چمن سرحد کے ذریعے 3 ہزار افغان شہریوں کی وطن واپسی

ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیارات سے تجاوز کرنے کا واضح معاملہ ہے کیونکہ این ایل سی کو صرف کسٹم ٹرمینل کے معاملات کو سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور امیگریشن کے معاملات میں مداخلت کرنے کو نہیں کہا گیا تھا۔

مسئلے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے عہدیداروں نے کہا کہ انہوں نے ماضی قریب میں این ایل سی کے اعلیٰ حکام کو عملے کی کئی مرتبہ شکایات درج کرائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور واپس جانے والے افغانوں کو ان کے واپسی کے سفر کے لیے این ایل سی کے عملے کو رشوت دینے پر مجبور کرنے کے الزام کو نادرا کے بعض عملے نے بھی تسلیم کیا جبکہ طورخم لیبر یونین کے ارکان نے بھی تسلیم کیا کہ ان کے کچھ ساتھی این ایل سی کے عملے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

نادرا کے عملے نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے کے افسران واپس جانے والے افغانوں کو ’لوٹنے‘ کے لیے برابر کے ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنے مقامی ایجنٹس کی مدد سے افغانیوں کو غیر قانونی رقم ادا کرنے پر مجبور کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ واپس جانے والے افغانیوں کو نادرا نے دستاویزات کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد ہی ٹوکن جاری کیے۔

یہ بھی پڑھیں: رواں سال افغان مہاجرین کی واپسی میں نمایاں کمی

متعلقہ حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے اور این ایل سی سرحد پر افغانیوں سے ٹوکن لے کر رکھ لیتی ہے اور انہیں اس وقت تک انتظار کرواتے ہیں جب تک ان کے ایجنٹس کوئی ڈیل نہیں کرادیتے، عمومی طور پر فی افغان 5 سے 30 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے افغان شہری جابر شاہ نے بتایا کہ وہ اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے پاکستان پہنچے تھے لیکن واپسی پر انہیں این ایل سی کے عملے نے روک دیا جبکہ میرے پاس نادرا کا ٹوکن بھی تھا۔

انہوں نے بتایا کہ این ایل سی کے ایجنٹس نے 30 ہزار روپے طلب کیے جبکہ میرے پاس تمام دستاویزات مکمل تھیں، ایف آئی اے نے مجھ پر پاکستان میں مقررہ وقت سے زیادہ رکنے پر جرمانہ لگایا تھا جو میں ادا کرنے کے لیے آمادہ تھا۔

طورخم میں این ایل سی کے جنرل منیجر (ر) کرنل عزیز سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے کسی بھی عملے کی جانب سے رشوت لینے کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر عملے کا کوئی رکن کرپشن میں ملوث پایا گیا تو اسے فوری طور پر رخصت کردیا جائے گا۔

تاہم انہوں ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ زیادہ تر افغان شہریوں کے پاس جعلی یا نامکمل سفری دستاویزات ہیں اور اس طرح این ایل سی کے عملے نے ان کے دستاویزات کو دوبارہ چیک کرنے کے لیے روکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں