لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ہمارے پاس یہ گمان رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہندوتوا کو شکست نہیں ہوسکتی یا اسے توڑا نہیں جاسکتا، کیونکہ دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم کا ایک گروہ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جمعے سے امریکی یونیورسٹیوں اور فیکلٹی کے تعاون سے دنیا بھر کے سیکڑوں دانشوروں کا 3 روزہ آن لائن اجلاس منقعد کیا جارہا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ 3 روزہ آن لائن اجلاس دائیں بازو کے ہندو گروہوں کو توڑنے اور بیرونِ ملک پھیلنے والے ان کے تنظیمی نظریات کو روکنے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

ان دانشوروں کو امید ہے کہ وہ نئی دہلی کی حکمراں جماعت سے منسلک غیر ملکی ہندوستانی گروہوں کے نیٹ ورک پر قابو پانے کے لیے امریکا میں مدد حاصل کرلیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دانشور یہ کام کرسکتے ہیں؟ اور اس سے بڑھ کر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی نظام ان پر توجہ دینے میں دلچسپی لے گا؟

یورپ میں یہ کام انجام دینے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کے حامل ممالک میں اتحاد قائم کرنے کے لیے ایک عالمی جنگ کی ضرورت پڑی تھی جس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔ لیکن پھر بھی وہ کینسر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ مگر بھارت میں انتخابی راستے سے ہندوتوا کو ہرانا نظریاتی طور پر ممکن نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو یورپ کے پاس نہیں تھا۔

مزید پڑھیے: ’بندے مار دو، لیکن املاک نہ جلاؤ‘

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کو بہت مشکل بنادیا ہے تاہم اس کے باوجود کچھ ریاستوں نے ہندوتوا کے عزائم کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستوں نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابی مشینری کو ہرانا بہت مشکل کام نہیں ہے اور ایسا پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا۔ یہاں کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ ہندوتوا کی پیسے کی قوت اور ان کی عوامی قوت انتخابی اعتبار سے کمزور ہے۔

اگلے سال فروری میں بھارت میں بہت اہم انتخابات ہونے ہیں اور ان انتخابات میں اصل معرکہ اترپردیش میں ہوگا جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہاں حزبِ اختلاف کی بہت مشکل لیکن ممکنہ جیت وزیرِاعظم مودی کے تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بننے کے منصوبے کو درہم برہم کرسکتی ہے۔

مئی 2024ء میں بھارت میں عام انتخابات ہونے ہیں اور اس سے قبل 16 دیگر ریاستوں میں بھی انتخابات طے ہیں۔ یہاں ہر ریاست کے نتائج اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں جانب سے سخت مقابلے کی امید رکھی جاسکتی ہے لیکن اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں مودی کو ہٹانے کی مشترکہ حکمتِ عملی پر اتحاد کرلیں تو ان کی شکست کی کوئی وجہ برقرار نہیں رہتی۔

تاہم ہندوتوا نظریات نے کئی دہائیوں سے بھارت میں جڑ پکڑی ہوئی ہے اور صرف انتخابی کامیابی سے اس کے اثرات کو زائل نہیں کیا جاسکتا۔ فاشسٹ قوتوں نے علمی اور ثقافتی شعبوں میں اہم جگہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، ساتھ ہی بیوروکریسی اور دیگر ریاستی اداروں کو بہت دلیری کے ساتھ کمزور کردیا ہے۔

یہاں تک کہ کیرالہ کے سیکولر حکمران بھی مذہبی حوالے سے ہندوتوا کے نظریات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ رہنماؤں کی گاڑیوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوتیں اور گاڑی کے پیچھے نمایاں طور پر چی گویرا کی تصویر لگی ہوتی۔

بھارتی دانشور مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی جانب سے گائے کے گوشت پر لگائی گئی پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم زیادہ آبادی والی شمالی ریاستوں میں اس مسئلے کو پذیرائی نہیں ملے گی۔ یہاں اس مسئلے کو چھیڑنا گائے کی پرستش کے معاملے میں مداخلت کے مترادف ہوگا اور حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں کے لیے یہ کام اگر مہلک نہ بھی ہو تو ایک چیلنج ضرور ہوگا۔

مزید پڑھیے: ہندو راشٹریہ کے نمائندے مودی بھارت کو یہ نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں؟

انتخابی شکست کے امکانات ہمیشہ ہندوتوا گروہوں کو اشتعال انگیز کارروائی کرنے کی ترغیب دیں گے۔ اس حوالے سے ان کا سب سے مؤثر آلہ عوامی سطح پر اشتعال پیدا کرنا اور متنازع مسائل پر طاقت کا اظہار کرنا ہے۔

مثال کے طور پر ہندوتوا گروہوں کو یورپی فاشسٹوں کے مقابلے میں شاذ و نادر ہی اشتعال دلایا گیا ہوگا۔ لیکن فلمی گیت نگار جاوید اختر کی طرح ذرا یہ کہنے کی کوشش تو کیجیے کہ ہندوتوا قوتوں کی افغان طالبان کے ساتھ مماثلت ہے۔

ہندوتوا کی قوتیں ان پر پل پڑیں اور جاوید اختر کی حمایت میں سامنے آنے والی واحد جماعت شیو سینا تھی۔ ممبئی کا یہ ہندو عسکریت پسند گروہ بھی بی جے پی کی ہی طرح عوامی قوت کا حامل ہے۔ اگرچہ شیو سینا ہندوتوا کی افغان طالبان سے مماثلت پر تو جاوید اختر سے اختلاف رکھتی ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مسلمان لکھاری نے ہمیشہ سیکولرازم کے لیے آواز بلند کی ہے اس وجہ سے ان پر کیچڑ اچھالنا درست نہیں ہے۔

ہندوتوا نظریات رکھنے والے گروہ شدت سے ایسے مسائل کی تلاش میں ہیں جو اتر پردیش اور دیگر انتخابی ریاستوں میں ہندو مسلم بنیاد پر ووٹ کو تقسیم کرسکیں۔ دوسری جانب ایک طاقتور کسان تحریک جو پنجاب میں شروع ہوئی تھی وہ اب مغربی یوپی تک پھیل گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان کسانوں کی باہمی دشمنی نے مودی کو 2014ء میں جیتنے میں مدد کی تھی تاہم اس بار کسانوں نے مودی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قابل دانشور اور لبرل ماہرینِ تعلیم اپنے آپ کو ہندوستان کی ریئل پولیٹک میں کہاں دیکھتے ہیں؟

ہندوتوا کو ختم کرنے کے مقصد کی خاطر ہونے والی 3 روزہ کانفرنس کے منصوبے کے خلاف پہلے ہی شدید ردِعمل سامنے آچکا ہے۔ تقریباً 900 ماہرینِ تعلیم نے ایک پیغام کے ذریعے اس کانفرنس کا درست تناظر پیش کیا ہے۔

بیان کے مطابق ’دنیا بھر کی علمی برادریوں کے ممبران اور اسکالرز کی حیثیت سے ہم ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا کانفرنس کے خلاف ہراساں کرنے اور دھمکی آمیز مہم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور کانفرنس کی سرپرستی کرنے والی 49 سے زائد یونیورسٹیوں اور 60 سے زائد شعبہ جات اور مراکز کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں‘۔

اس کانفرنس کے ساتھ اشتراک کرنے والے اداروں پر ’سیاسی شدت پسندوں‘ نے حملے کیے اور انہوں نے اس کانفرنس کو ’ہندو فوبک‘ یا ’ہندو مخالف‘ قرار دینے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیے: بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟

اوپر ذکر کیے گئے بیان میں ہندوتوا اور ہندو ازم کو آپس میں ملانے کی گمراہ کن کوششوں کو مسترد کیا گیا۔ اس میں کہا گیا کہ ہندوتوا ایک آمرانہ سیاسی نظریہ تھا جو تاریخی طور پر نازی جرمنی اور مسولینی کے اٹلی سے متاثر تھا۔ ’اس کا رہنما اصول یہ ہے کہ ہندوستان کو ایک سیکولر جمہوریت سے مذہبی ریاست میں تبدیل کیا جائے جہاں مسلمان، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کی حیثیت حاصل ہو‘۔

اگر کانفرنس کا شیڈول دیکھا جائے تو یہ کانفرنس وزیرِاعظم مودی کے مجوزہ دورہ امریکا سے ذرا پہلے منعقد ہورہی ہے۔ تو کیا امریکی صدر جو بائیڈن اس کانفرنس سے متاثر ہوں گے؟

مودی کو 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر امریکا کا ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا تاہم اب وہ ایک ایسے ملک کے وزیرِاعظم ہیں جو چین سے نمٹنے کے لیے امریکی حکمتِ عملی میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ دانشور اپنی صلاحیتوں کا استعمال دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتے تو شاید ہندوتوا کو روکنے میں زیادہ مدد ملتی۔ بلآخر یہ جماعتیں ہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو برباد ہونے سے بچا سکتی ہیں۔


یہ مضمون 07 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

عثمان ارشد ملک Sep 11, 2021 05:20pm
بی جے پی ایک فاشسٹ جماعت ہے ، یہ انڈیا کے سیکولر نظریے پر ایک دھبہ ہے ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیکولر کا نعرہ لگانے والے لوگ اتنے کمزور کیوں ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ معاشرے کی شدت پسندی کی ایک علامت ہے جو تباہی کا مؤجب ہو سکتی ہے ۔