جو ٹی ٹی پی اراکین جرائم میں ملوث نہیں، آئینِ پاکستان کے تحت چلنا چاہے تو عام معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2021
ڈان نیوز میں ڈاکٹر عارف علوی کا انٹرویو جمعے کو نشر ہوگا--فائل/فوٹو: پی آئی ڈی
ڈان نیوز میں ڈاکٹر عارف علوی کا انٹرویو جمعے کو نشر ہوگا--فائل/فوٹو: پی آئی ڈی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ جو کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اراکین جرائم میں ملوث نہیں اور ٹی ٹی پی کے نظریات کو چھوڑ کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہے تو حکومت عام معافی کا سوچ سکتی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'خبر سے خبر' کے لیے دیئے گئے انٹرویو میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے افغان طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہمارے لیے خطرہ ہے، ان کی تیسری یا چوتھی صف کے رہنماؤں کی طرف سے یہ بات ہوئی ہے کہ وہ کہیں گے ہمارے پاس رہیں مگر پاکستان کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں'۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی افغانستان کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے، ذبیح اللہ مجاہد

خیال رہے کہ صدر مملکت کا یہ تفصیلی انٹرویو جمعے (10 ستمبر) کو رات 10 بج کر 5 منٹ پر ڈان نیوز پر نشر ہوگا لیکن بدھ کے روز چینل کی جانب سے مذکورہ ریکارڈڈ انٹریو کا ایک مختصر ٹیزر نشر کیا گیا تھا۔

اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کی حکومت نے کہا کہ جو ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ان کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک قدم ہے، پاکستان عام معافی کا سوچے گا، اگر کوئی ہتھیار ڈالتا ہے'۔

میزبان کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ 'میں کسی کا نام نہیں لے رہا، پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کریمنل سرگرمیوں میں نہیں رہے ہوں، ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر پاکستان کے آئین کی پابندی کرنے کے اعتبار سے آنا چاہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے کوئی معافی کا اعلان کرے'۔

قبل ازیں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی اپنے آپ کو ہمارا تابعدار سمجھتے ہیں اور ہمارے امیرالمومنین کو مانتے ہیں تو پھر انہیں ان کی باتوں پر عمل کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'دہشت گرد' کہنے سے گریز کریں ورنہ دشمنوں کی طرح پیش آئیں گے، ٹی ٹی پی کی میڈیا کو دھمکی

ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حوالے سے سوال پر افغان طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے ان کے عوام، علما اور پاکستانی حلقے لائحہ عمل طے کریں، یہ ہمارا قضیہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے اس لیے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

خیال رہے کہ ٹی ٹی پی مختلف عسکریت پسند تنظیموں کا گروپ ہے جو 2007 میں تشکیل دیا گیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے اگست 2008 میں اسے کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا، بیت اللہ محسود ٹی ٹی پی کا پہلا سربراہ تھا جو 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

حکومت نے ٹی ٹی پی سے منسلک دیگر گروپوں پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت میڈیا کو بقول اس کے 'عسکریت پسندوں کی تعریف' سے روک دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں