کیا یکساں قومی نصاب کی کتب میں 'صنفی امتیاز' کی عکاسی کی گئی ہے؟

09 ستمبر 2021
شرمیلا فاروقی نے اپنی  ٹوئٹ میں پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب کی تصویر شیئر کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی
شرمیلا فاروقی نے اپنی ٹوئٹ میں پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب کی تصویر شیئر کی تھی— فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی حکومت کی جانب سے یکساں قومی نصاب (ایس این سی) کے تحت شائع ہونے والی کچھ درسی کتابوں میں خواتین اور بچیوں سے متعلق مبینہ صنفی امتیاز کی عکاسی نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہورہی ہے جس میں پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک خاندان کو ساتھ وقت گزارتے دکھایا گیا ہے، تصویر میں باپ اور بیٹے نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی ہے اور وہ صوفے پر کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں جبکہ ماں اور بیٹی نے حجاب لیا ہے اور وہ سامنے زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں۔

مذکورہ تصویر پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سابق رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اپنی ٹوئٹ میں پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب کی تصویر شیئر کی۔

انہوں نے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 'خواتین اور لڑکیاں گھر کے مردوں کے قدموں میں بیٹھی ہیں، یکساں قومی نصاب کا مقصد اسے فروغ دینا ہے'۔

ان کے بعد پاکستانی فلم ساز اور سماجی کارکن شرمین عبید چنائے نے بھی اپنی انسٹاگرام اسٹوریز میں پانچویں جماعت کی کتاب کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اور ہم اپنے بچوں کو یہ سبق پڑھارہے ہیں، آپ کیا دیکھتے ہیں؟

— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

شرمین عبید چنائے نے پہلی جماعت کی انگریزی کی کتاب کی تصویر بھی شیئر کی جس میں ایک بچی نے حجاب پہنا ہوا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'پہلی جماعت کی بچیاں 4 سے 5 برس کی ہوتی ہیں، ہم انہیں کیا بتارہے ہیں کہ اس عمر میں خود کو کور کرنا چاہیے؟ جنہوں نے یہ کتابیں ڈیزائن کی ہیں انہیں ذمہ دار ٹہرایا جانا چاہیے'۔

— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے اس نصاب کو قبول نہیں کیا، ماں اور بیٹی کو زمین پر بٹھا کر آپ کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں معصوم بچوں کو، ہم اپنی خواتین کو سر کا تاج بناکر رکھتے ہیں اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو یہ سکھانا ہوگا'۔

مذکورہ تصاویر شیئر کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی، کئی صارفین نے شرمیلا فاروقی کے بیان کو غلط قرار دیا۔

نعمان نامی صارف نے تیسری اور پہلی جماعت کی کتابوں کی تصاویر شیئر کیں جن میں سے ایک میں بچہ نیچے اور بچی صوفے پر بیٹھی ہوئی ہے جبکہ تیسری جماعت کی کتاب میں موجود تصاویر میں بچیوں نے حجاب نہیں پہنا ہوا۔

عمر نامی صارف نے ایس این سی کی ہدایات کے مطابق پنجاب کوریکلم اور ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے منظور کردہ کتابوں کی تصاویر شیئر کیں اور مختلف ٹوئٹس میں بتایا کہ ان میں بچوں کو ہدایات دی گئی ہیں جس سے معاشرے میں جنسی جرائم میں کمی آئے گی۔

ملک لیاقت نے لکھا کہ انتہائی گھٹیا تنقید کی ہے آپ نے اس تصویر کو بھی چیک کر لیں۔

رضوان سلیم نامی صارف نے شرمیلا فاروقی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے انہیں درست قرار دیا۔

چوہدری کامران کا کہنا تھا کہ یہاں سر کا تاج بنا دیا ہے اب کرلو گے قبول؟

ایک اور صارف نے کہا کہ آپ کا اپنا تعلیمی معیار جتنا اعلیٰ ہے اس لحاظ سے تعلیم بالغاں پر پہلا حق آپکا ہے، ایک تصویر پر جراح کرنے والے اس تصویر پر کیا کہیں گے۔

بعدازاں وزیراعظم کے ترجمان برائے عوامی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹوئٹ میں مختلف درسی کتب کی تصاویر شیئر کیں اور اس حوالے سے شائع ایک کالم پر ردعمل دیا۔

انہوں نے لکھا کہ 'انتہائی سطحی قسم کا اعتراض بنا کر بی بی سی کے کالم میں تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان ریاست کی سطح پر صنفی امتیاز کا شکار ہے'۔

ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ اسے مان بھی لیا جائے تو اگر ایک تصویر میں بچہ اوپر بیٹھا ہے تو دوسری میں بچہ زمین پر اور بچی اوپر، حجاب ہے تو بنا حجاب بھی ہے، امید ہے اس پر بھی قلم کشائی کریں گے'۔

خیال رہے کہ رواں برس اگست میں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان بھر میں تعلیم کے شعبے میں طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے یکساں نصابِ تعلیم کا اجرا کیا تھا۔

تاہم صوبہ سندھ میں یکساں قومی نصاب کو تاحال رائج نہیں کیا جبکہ دیگر صوبوں میں کتب شائع ہوگئی ہیں۔

علاوہ ازیں نئے نصاب کی زیادہ تر کتب اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے بھی تنقید کی جاچکی ہے کہ قوم کو آگے بڑھنے نہیں دیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں