روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
واں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
واں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 168 روپے 90 پیسے کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی۔

مالیاتی اور تجزیاتی اعداد و شمار کے ویب پورٹل 'میٹس گلوبل' پر 11 بج کر 39 منٹ پر پوسٹ ہونے والی اپڈیٹ کے مطابق منگل کے روز روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 80 پیسے کم ہوئی۔

گزشتہ روز ڈالر 168 روپے 9 پیسے کی سطح پر بند ہوا تھا جو اپڈیٹ کے مطابق 11 بج کر 41 منٹ پر 168 روپے 90 پیسے پر پہنچ گیا۔

انٹر بینک میں 80 پیسے اضافے کے ساتھ ڈالر کی قدر 168 روپے 90 پیسے جبکہ اوپن مارکیٹ میں اس کی قدر 70 پیسے کے اضافے کے بعد 169 روپے 70 پیسے ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: درآمد کنندگان میں ڈالر کی خریداری کے رجحان سے روپے کی قدر میں کمی

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی خریداری بڑھنے اور افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ کی وجہ سے مقامی سطح پر ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی سالوں بعد ڈالر کی بلیک مارکیٹ دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر، اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں 3 روپے اوپر میں فروخت ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو کنٹرول کرنے کے لیے اسمگلنگ کو روکنا اور غیر قانونی طور پر کرنسی کا لین دین کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ہوگا۔

ٹریس مارک کے فیصل مامسا کا کہنا تھا کہ 'تاجر پورا دن 169 روپے سے چند پیسے کم پر ڈالر کی تجارت کرکے مرکزی بینک کا امتحان لیتے رہے، اسٹیٹ بینک کے پاس اس وقت مداخلت کا پورا جواز موجود تھا۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ریکارڈ ذخائر کے باوجود ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ ہورہا ہے جبکہ کمزور کرنسی کے باعث مہنگائی میں اضافے اور اس کے نتیجے میں مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور شرح سود بڑھانا بھی اس کی وجہ ہے۔

10 ستمبر 2021 کو ڈالر 13 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ ریکارڈ 168 روپے 20 پیسے پر ٹریڈ کرنے کے بعد بند ہوا۔

اس سے قبل گزشتہ برس 26 اگست کو ڈالر 168 روپے 43 پیسے کی سب سے بلند سطح پر پہنچا تھا جس کے بعد کمی کا سلسلہ جاری تھا۔

تاہم بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر رواں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے۔

مزید پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 10 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی بات ہے کیوں کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ایکسچینج ریٹ نہیں بڑھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھا جارہا ہے، جو مصنوعی اور ملکی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔

مقامی کرنسی کی قدر میں تنزلی ایل این جی سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو لپیٹ میں لے گی، جس سے مہنگائی اور پیداواری اخراجات بڑھ رہے ہیں، اس کے نتیجے میں اضافی اخراجات کے ساتھ برآمدات کے اضافے پر زور دینا مشکل ہوگا۔

تجزیہ کاروں کا ماننا تھا کہ مقامی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ایس بی پی کا نقطہ نظر بھی ہے کہ مالی سال 2022 کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے پر ایکسچینج ریٹ بڑھے گا۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ زیادہ درآمدی بل ہیں اور یہ مالی سال 22 کے دوران ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کا نتیجہ بھی ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں