وزیرتعلیم سندھ نے یکساں قومی نصاب کو مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 5 ہزار اسکولوں میں بنیادی ڈھانچہ تک نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 5 ہزار اسکولوں میں بنیادی ڈھانچہ تک نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے یکساں قومی نصاب (ایس این سی) کو مسترد کردیا جس میں سندھ اسمبلی کو بتایا گیا کہ تعلیم اور نصاب صوبائی معاملہ ہے اور صوبوں کو حق ہے کہ وہ طلبا کو ان کی مادری زبان میں پڑھائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کی جانب سے اٹھائے گئے ایک پوائنٹ آف آرڈر کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ایس این سی کو 'نصاب مارشل لا' قرار دیا۔

حلیم عادل شیخ نے پوائنٹ آف آرڈر میں پوچھا تھا کہ کیا صوبائی حکومت صوبے بھر میں 10 ہزار سے زائد اسکول بند کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا صوبوں میں یکساں قومی نصاب متعارف کرانے پر زور

سید سردار شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نصاب کی تیاری کے دوران حکومت سندھ کو مشاورت کے لیے شامل نہیں کیا اور صوبے کو شائع شدہ کتابیں دینا چاہتی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئے نصاب میں وفاقی حکومت طلبہ سے ان کی تین سالہ کارکردگی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایس این سی نافذ کرنے میں ’جلد بازی‘ دکھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں آئین کو دیکھے بغیر ایس این سی نافذ کرنے کا وعدہ کیا جس کے مطابق تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔

سید سردار شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صرف سائنس مضامین کے لیے ایس این سی نافذ کرنے میں وفاقی حکومت کی حمایت کی تھی۔

19 ہزار اسکول بیت الخلا سے محروم ہیں، حلیم عادل شیخ

اپنے پوائنٹ آف آرڈر میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ وفاقی حکومت کا مقصد ملک میں امیر اور غریب کے لیے یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنا ہے، سندھ میں اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ میڈیا میں یہ خبر آئی کہ صوبائی حکومت نے صوبے بھر میں 10 ہزار اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں 69 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے، ’یہ اسکول کیوں بند کیے جا رہے ہیں جب اتنی بڑی تعداد میں بچے پہلے ہی اسکول نہیں جاتے اور اگر یہ ادارے غیر ضروری طور پر قائم کیے گئے تو ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

یہ بھی پڑھیں: کیا یکساں قومی نصاب کی کتب میں 'صنفی امتیاز' کی عکاسی کی گئی ہے؟

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اسکولوں کی حالت بہت خراب ہے کیونکہ 26 ہزار اسکولوں میں پینے کے پانی کی سہولت نہیں اور 19 ہزار اسکولوں میں بیت الخلا نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 31 ہزار سے زائد اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسکولوں کے ڈیسک 29 ہزار روپے کی بھاری قیمت پر خریدے گئے۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ صوبے کے مجموعی 47 ہزار اسکولوں میں سے 39 ہزار پرائمری اور صرف 4 ہزار پری پرائمری اسکول تھے۔

مزیدپڑھیں: حکومت پرائمری کلاسوں میں یکساں تعلیمی نصاب متعارف کروانے کیلئے تیار

انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 5 ہزار اسکولوں میں بنیادی ڈھانچہ تک نہیں ہے۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ تقریباً 11 ہزار اسکولوں کو بند کرنے کی فہرست دی گئی لیکن ان میں سے 7 ہزار مکمل طور پر ناقابل عمل ہیں۔

کراچی کیلئے 250 بسیں خریدی جا رہی ہیں، گھنور خان

پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ گھنور خان نے بتایا کہ ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے پر کام اس سال کے آخر میں یا 2022 کے آغاز میں شروع ہونے والا تھا۔

تحریک لبیک پاکستان کی ثروت فاطمہ کی جانب سے دیے گئے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے 250 بسوں کے ساتھ الیکٹرک بسیں خریدی جا رہی ہیں۔

ٹی ایل پی کے قانون ساز نے کہا کہ شہر میں ماس ٹرانزٹ نہیں ہے، نجی بسیں بھی خستہ حال ہیں، لوگوں کا کراچی میں سفر کرنا مشکل ہے، 20 لاکھ نجی گاڑیاں ہیں جو آلودگی سمیت ہزاروں مسائل کا باعث بنتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں