سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کا متحدہ عرب امارات کیلئے امریکی نیٹ ورک ہیک کرنے کا اعتراف

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2021
تینوں سابق اہلکاروں نے متحدہ عرب امارات کی ان کے دشمنوں کی جاسوسی میں مدد کی—
تینوں سابق اہلکاروں نے متحدہ عرب امارات کی ان کے دشمنوں کی جاسوسی میں مدد کی—

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے لیے سائبر جاسوس کے طور پر کام کرنے والے تین سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں نے قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے معاہدے کے تحت امریکی ہیکنگ قوانین اور حساس فوجی ٹیکنالوجی کی فروخت پر پابندی کی خلاف ورزی کا اعتراف کرلیا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق تینوں اہلکار مارک بائر، ریان ایڈمز اور ڈینیئل گیرک 'پراجیکٹ ریوین' نامی خفیہ یونٹ کا حصہ تھے اور ان کے بارے میں سب سے پہلے رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ان کے دشمنوں کی جاسوسی کرنے میں مدد کی۔

مزید پڑھیں: روس کیلئے جاسوسی کرنے والے سابق امریکی فوجی پر فرد جرم عائد

رائٹرز نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی شاہی حکومت کے کہنے پر پراجیکٹ ریوین ٹیم نے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور حریف حکومتوں کے اکاؤنٹس ہیک کیے۔

منگل کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی وفاقی عدالت میں پیش کیے گئے عدالتی کاغذات کے مطابق تینوں افراد نے امریکا میں کمپیوٹر نیٹ ورکس میں ہیکنگ اور امریکی حکومت سے مطلوبہ اجازت حاصل کیے بغیر جدید ترین حساس سائبر ٹولز برآمد کرنے کا اعتراف کیا۔

ان تینوں سابق اہلکاروں اور ان کے وکلا نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

واشنگٹن ڈی سی میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'امریکا نے انجیلا مرکل کی جاسوسی کیلئے ڈینمارک کی انٹرنیٹ کیبل استعمال کی'

قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے وفاقی حکام کے ساتھ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر تین سابق انٹیلی جنس اہلکاروں نے مشترکہ طور پر 60 لاکھ 90 ہزار ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا اور پھر امریکی سیکیورٹی کلیئرنس نہیں مانگی جو نوکریوں کے لیے ایک اہم ضرورت ہے اور اس کے ذریعے قومی سلامتی کے رازوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔

محکمہ انصاف کے قومی سلامتی ڈویژن کے قائم مقام اسسٹنٹ اٹارنی جنرل مارک جے لیسکو نے ایک بیان میں کہا کہ کرائے پر اپنی خدمات دینے یا امریکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والوں کو اس طرح کے مجرمانہ طرز عمل پر مقدمہ چلنے کی توقع رکھنی چاہیے۔

2019 میں رائٹرز کی جانب سے پراجیکٹ ریوین کے بارے میں کیے گئے انکشافات میں سابق انٹیلی جنس اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی مشق کی نشاندہی کی گئی جو کسی نگرانی یا احتساب کے بغیر بیرون ملک جاسوسی مواد بیچتے ہیں۔

ایف بی آئی کے سائبر ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائن وورن ڈران نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ امریکی حکومت کے سابق ملازمین سمیت سب کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو بیرونی حکومت یا کسی غیر ملکی تجارتی کمپنی کے فائدے کے لیے سائبر مواد بیچتے ہیں، یہ ایک خطرہ ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

مزید پڑھیں: سنگاپور کے شہری کا امریکا میں چین کیلئے جاسوسی کا اعتراف

پراجیکٹ ریوین میں کام کرنے والی امریکی قومی سلامتی ایجنسی کی سابق تجزیہ کار اور اس حوالے سے آواز بلند کرنے والی لوری اسٹروڈ نے کہا کہ وہ ان الزامات کو دیکھ کر خوش ہیں، اس مسئلے کو سامنے لانے میں سب سے اہم محرک تحقیقاتی صحافت تھی، بروقت، تکنیکی معلومات کی اطلاع نے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے آگاہی پیدا کی۔

رائٹرز کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ پراجیکٹ ریوین نے انسانی حقوق کے متعدد کارکنوں کی جاسوسی کی جن میں سے کچھ کو بعد میں متحدہ عرب امارات کی سیکیورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا۔

پروگرام کے سابق کارکنوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ وہ قانون کی پیروی کر رہے ہیں کیونکہ اعلیٰ افسران نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ امریکی حکومت نے اس کام کی منظوری دے دی ہے۔

عدالتی کاغذات کے مطابق، بائر، ایڈمز اور گریک نے "کرما" نامی ایک جدید ترین سائبر ہتھیار کو تعینات کرنے کا اعتراف کیا جس نے متحدہ عرب امارات کو ایپل آئی فونز کو ہیک کرنے کی صلاحیت عطا کی اور اس کے لیے کسی لنک پر کلک کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں: ایپل کی جانب سے امریکی حکومت کیلئے خفیہ آئی پوڈ بنائے جانے کا انکشاف

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پراجیکٹ ریوین نے کرما کو ہزاروں اہداف کو ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا جس میں نوبل انعام یافتہ یمنی انسانی حقوق کے کارکن اور بی بی سی ٹیلی ویژن شو کے میزبان بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں