امریکا سے اسی طرح کے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2021
وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کو انٹرویو میں افغانستان کی صورتحال کو پریشان کن قرار دیا— فوٹو بشکریہ پی ٹی آئی ٹوئٹر
وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کو انٹرویو میں افغانستان کی صورتحال کو پریشان کن قرار دیا— فوٹو بشکریہ پی ٹی آئی ٹوئٹر

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 9/11 کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، امریکا سے یکطرفہ تعلقات نہیں چاہتے بلکہ اسی طرح کے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے اور وہ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے، اگر طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں اور تمام دھڑوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40 سال بعد امن قائم ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: القاعدہ آئندہ چند برس میں امریکا کیلئے خطرہ بن سکتی ہے، امریکی عہدیدار

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ خدشات بھی لاحق ہیں، تو اس سے افراتفری پھیلے گی، سب سے بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا، مہاجرین کا مسئلہ ہو گا اور افغانستان غیرمستحکم ہو گا۔

'غیرمستحکم افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ جنم لے سکتا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے افغانستان میں آنے کا مقصد دہشت گردی اور عالمی دہشت گردوں سے لڑنا تھا لہٰذا غیر مستحکم افغانستان اور مہاجرین کے بحران کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے سکتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہاں سے افغانستان کی صورتحال کیا نکلے گی، ہم صرف امید اور دعا کر سکتے ہیں کہ وہاں 40 سال بعد امن قائم ہو، طالبان نے کہا کہ وہ ایک جامع حکومت چاہتے ہیں، وہ اپنے خیالات کے مطابق خواتین کو حقوق دینا چاہتے ہیں، وہ انسانی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا ہے تو یہ سب چیزیں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔

یہ تاثر غلط ہے کہ باہر سے آ کر کوئی افغان خواتین کو حقوق دے گا، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو باہر سے بیٹھ کر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، ان کی ایک تاریخ ہے، افغانستان میں کسی بھی کٹھ پتلی حکومت کو عوام نے سپورٹ نہیں کیا لہٰذا یہاں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ ہم انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں، اس کے بجائے ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ عالمی معاونت اور امداد کے بغیر وہ اس بحران کو نہیں روک سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے ’ڈریس کوڈ‘ کے خلاف افغان خواتین کی ’میرے لباس کو نہ چھوؤ‘ مہم

طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو حقوق فراہم نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلط تاثر ہے کہ باہر سے آ کر کوئی فرد افغان خواتین کو ان کے حقوق دے گا، افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں، وہ خود اپنے حقوق حاصل کریں گی۔

جو بائیڈن مصروف آدمی ہیں، عمران خان

امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکی صدر مصروف آدمی ہیں، آپ ان سے ہی پوچھیں کیا کہ وہ اتنے مصروف ہیں کہ ایک کال بھی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، ایک وقت تھا کہ 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ کررہے تھے، 80 کی دہائی میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، ہم نے مجاہدین کو تربیت دی تاکہ وہ افغانستان میں جہاد کر سکیں ان مجاہدین میں القاعدہ اور طالبان شامل تھے اور اس وقت یہ ایک مقدس کام تصور کیا جاتا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 9/11 کے بعد امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، جارج بش نے پاکستان سے مدد طلب کی اور اس وقت کہا تھا کہ ہم پاکستان کو دوبارہ تنہا نہیں چھوڑیں گے، پاکستان امریکا کی جنگ کا حصہ بن گیا، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔

50 دہشت گرد گروپوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ 480 ڈرون حملے بھی ہوئے، وزیراعظم

عمران خان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ مجاہدین تھے لیکن بعد میں ہم انہیں دہشت گرد کہہ رہے تھے کیونکہ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا ہے تو اب آپ کے کام دہشت گردی ہیں، وہ ہمارے مخالف ہو گئے اور پاکستان کے تمام قبائل اور پشتون آبادی بھی طالبان کے حق میں ہو گئی اور اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ یہ تھی کہ وہ بھی پشتون تھے۔

مزید پڑھیں: افغان وزیر خارجہ کی بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے امداد کی بحالی کی اپیل

انہوں نے کہا کہ امریکا کا ساتھ دینے کے نتیجے میں جہادی ہمارے خلاف ہو گئے، پشتون ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے اور ہم نے شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے تو اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے اور ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔

عمران خان نے کہا کہ ان گروپس کے حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں 480 امریکی ڈرون حملے ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جنگ میں کسی ملک پر اس کے اپنے ہی اتحادی نے حملہ کیا ہو۔

دوران پروگرام وزیراعظم کو امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کی افغانستان میں صورتحال کے حوالے سے گفتگو بھی سنائی گئی جس میں انہوں نے صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔

پاکستان کا اتنا بجٹ ہی نہیں کہ ایک اور جنگ کی فنڈنگ کرتا، عمران خان

وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے ان کو سنا اور کبھی بھی کسی کی خدمات کو اس طرح نظرانداز کرتے نہیں دیکھا، انہیں کچھ پتا ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں ہوا کیا ہے، وہ سب سکتے کی حالت میں ہیں، ریاست پاکستان دراصل امریکا کا ساتھ دینے کی وجہ سے حملوں کی زد میں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'طالبان حکومت انسانی حقوق کے وعدے پورے کرے تو ہی پاکستان انہیں تسلیم کرے گا'

انہوں نے کہا کہ امریکی بالکل نہیں سمجھتے حقانی نیٹ ورک کیا ہے، حقانی ایک پشتون قبیلہ ہے جو افغانستان میں رہتا ہے، 40 سال قبل جب افغان جہاد ہوا تو ہمارے پاس 50 لاکھ افغان مہاجرین آئے ان میں سے کچھ حقانی قبیلے کے بھی تھے اور حقانی نیٹ ورک کے لوگ سوویت سے لڑ رہے تھے اور پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم سے یہ کہہ رہے ہیں ہم ان 30 لاکھ لوگوں میں سے دیکھیں کہ کون طالبان ہے یا کون نہیں، جہاں تک فنڈنگ کی بات ہے کہ پاکستان کا 22 کروڑ عوام کے لیے 50 ارب ڈالر کا بجٹ ہے اور امریکی وہاں 30 کروڑ ڈالر یومیہ سے زیادہ خرچ کررہے تھے اور 2 کھرب ڈالر سے زائد خرچ کیے، کیا ہمارے پاس اتنی استعداد تھی کہ ہم ایک اور جنگ کی فنڈنگ کرتے۔

جب وزیر اعظم سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے افغان طالبان سے روابط کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں سب سے رابطے رکھتی ہیں، یہی ان کا کام ہے، امریکی سی آئی اے افغان طالبان سے بات کرے گی کیونکہ انہیں بات کرنی پڑے گی۔

'امریکا سے نارمل تعلقات چاہتے ہیں'

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا کیونکہ اس وقت اندر سے پاکستانی طالبان ریاست پاکستان پر حملے کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں 20 برس کے دوران یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے

ان کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کی نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کی بات ہے اور اگر عالمی برادری آج افغانستان کے عوام کی مدد نہیں کرتی تو ہمارے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے ہمیں سویلین امداد کی مد میں 9 ارب ڈالر اور 11 ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں دیے اور ہماری حالت ایک کرائے کی بندوق جیسی تھی، ہم سے توقع یہ رکھی گئی کہ ہم امریکا کو افغانستان میں جنگ جتوائیں جو ہم کبھی نہیں کر سکتے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا کی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے یہاں جگہ جگہ بم دھماکے ہو رہے ہیں، بے نظیر بھٹو اس کی وجہ سے ماری گئیں، ہماری معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ میں امریکا سے اسی طرح کا تعلق چاہتا ہوں جیسا ان کا بھارت سے ہے، یہ یکطرفہ تعلق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں جنگ کے لیے پیسے دے رہے ہوں، ہم نارمل تعلقات چاہتے ہیں۔

افغانستان میں عدم استحکام ہوا تو پاکستان کو دو خطرات لاحق ہیں، وزیر اعظم

افغانستان کی صورتحال بہتر نہ ہونے پر پاکستان کو درپیش خطرات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ مہاجرین کی آمد کا ہے، ہمارے ملک میں پہلے ہی 30 لاکھ مہاجرین ہیں، ہمارا ملک مزید مہاجرین کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم ایک مشکل صورتحال سے نکل کر آئے ہیں لہٰذا ہم مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی علاقائی صف بندی میں طالبان اور امریکا کہاں کھڑے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دوسرا خطرہ دہشت گردی سے ہے، ہمیں تین طرح کی دہشت گردی کا خطرہ ہے، پہلا خطرہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے ہے جو اس سرزمین پر ہم پر حملے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جس میں داعش، بلوچ دہشت گردوں اور پاکستانی طالبان شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں انتشار اور افراتفری ہو گی تو ہمیں ان دو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور سب سے زیادہ ہمیں بھی اس کے اثرات کو بھگتنا پڑیں گے۔

وزیراعظم نے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاک۔افغان سرحد پر ڈرون طیاروں سے سخت نگرانی کی جاتی رہی ہے، میں دوسروں کی جنگ لڑ کر اپنے ملک کو تباہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور بطور وزیراعظم میری ذمہ داری اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں