ملک کو ناقص پالیسیوں کے باعث تجارتی خسارے کا سامنا

20 ستمبر 2021
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں جو ٹیرف متعارف کرائے گئے تھے وہ بعد ازاں ہٹا لیے گئے اور انہیں اب تک دوبارہ متعارف نہیں کرایا گیا ہے — فائل فوٹو / رائٹرز
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں جو ٹیرف متعارف کرائے گئے تھے وہ بعد ازاں ہٹا لیے گئے اور انہیں اب تک دوبارہ متعارف نہیں کرایا گیا ہے — فائل فوٹو / رائٹرز

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو وراثت میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ تجارتی خسارہ ملا تھا جو سال 18-2017 میں 37.6 ارب تھا جس میں 60.8 ارب ڈالر کا درآمدی بل اور 23.2 ارب ڈالر کی برآمدات شامل تھیں۔

ایسی صورتحال میں اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا کہ ٹیرف میں اضافے کی صورت میں درآمدات کو کم کیا جائے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اشیا کی تجارت کا خسارہ 19-2018 میں کم ہو کر 31.8 ارب ڈالر اور 20-2019 میں مزید کم ہو کر 23.3 ارب ڈالر ہو گیا، تاہم 21-2020 یہ ایک بار پھر بڑھ کر 31.1 ارب ڈالر کی سطح پہنچ گیا جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ (جولائی اور اگست) میں یہ تیزی سے بڑھ کر 7.5 ارب ڈالر ہوا جس کا سبب درآمدات میں کئی گنا اضافہ ہے۔

ہمارے پالیسی ساز برآمد کنندگان کے لیے مراعاتی پیکجز لے کر آرہے ہیں اور متعلقہ عہدیداران کو ہدایت کی گئی ہے کہ بیرونی تجارت کی ماہانہ بنیاد پر پیش گوئی کی جائے۔

پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں جو ٹیرف متعارف کرائے گئے تھے وہ بعد ازاں ہٹا لیے گئے اور انہیں اب تک دوبارہ متعارف نہیں کرایا گیا ہے۔

پاکستان کی بیرونی تجارت کے ماڈل میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں جس کے باعث وہ طویل عرصے کے لیے برآمدی فوائد کو قائم نہیں رکھ پاتا جبکہ بڑھتی ہوئی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں پیشرفت اور جی ڈی پی نمو سے مطابقت رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اگست میں تجارتی خسارہ 133 فیصد بڑھ کر 4.05 ارب ڈالر ہوگیا

موجودہ حقائق یہ ہیں کہ ملک میں درآمدات میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں برآمدات میں کمی آئی ہے، جب تجارتی خسارہ بڑھتا ہے تو پالیسی ساز فوری حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جلد بازی میں بننے والی حکمت عملی کے سبب دیرپا نتائج حاصل نہیں ہو پاتے اور اس کی بنیادی وجہ اسٹرکچرل مسائل ہیں جو تجارتی خسارہ کم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت کی اس روش کی وجہ سے ہر چند سالوں بعد معیشت کو اچانک بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے آخری تین برسوں میں پاکستان میں 15 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی تھی جس کی وجہ سے ملکی وسائل میں گراں قدر اضافہ ہوا تھا، صنعتی پیداوار بڑھی جس سے اگلے تین سالوں میں برآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔

پرویز مشرف کے مشیروں کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی بڑی وجہ ان کی مغرب کی حمایت میں بنائی جانے والی پالیسیاں ہیں اور یہ سرمایہ کاری رک جائے گی جبکہ انہیں اس سرمایہ کاری کی وجہ سے صنعتوں میں مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا چاہیے تھ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ تو ہوا لیکن اتنا نہیں جو برآمدات بڑھانے میں مددگار ہو سکے۔

مشرف کے دور اقتدار کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مقامی سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے کوئی خاص کام نہ کیا اور سبسڈیز کے ذریعے برآمدات میں اضافے کی کوشش کی۔ زرداری دور کے پالیسی سازوں نے اس حکمت عملی کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں سوچا جس کے باعث تجارتی خسارے میں اضافہ اور سبسڈیز میں کمی آئی۔

لہٰذا تین سالوں تک برآمدات میں جو اضافہ ہوا تھا اس میں 12-2011 میں کمی جس میں اگلے سال کچھ بہتری دیکھی گئی لیکن پھر اگلے چار سالوں تک کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔

مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے آخری سال 18-2017 میں برآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ خوراک، ٹیکسٹائل اور چند دیگر برآمدی شعبوں کو بجلی کی فراہمی میں بہتری اور دیگر سبسڈیز تھیں۔

نواز شریف دور کے پالیسی ساز چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے آغاز کے بعد درآمدات میں غیر معمولی اضافے کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے، اس کے نتیجے میں درآمدات کئی گنا بڑھ گئیں اور 18-2017 ناقابل تصور غیر ملکی تجارتی خسارہ ہوا۔

مزید پڑھیں: مالی سال2021 میں تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک بڑھ گیا

اس طرح پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو بڑے پیمانے پر تجارتی خسارہ ورثے میں ملا جسے کم کرنے کی کوشش کے طور پر اس نے درآمدات میں کمی اور مبینہ طور پر سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سست کردی، لیکن دوسری جانب اس نے اپنے ابتدائی تین سالوں میں برآمدات میں اضافے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے اور نہ برآمد کنندگان کو توانائی سبسڈیز واپس لینے کے بعد مؤثر انداز میں برآمدات کے لیے تیار کیا۔

اب ماضی کی صورتحال واپس آگئی ہے، تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، روپیہ کمزور ہو رہا ہے، درآمدات میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔

ماضی کے دو عشروں میں پاکستان کے تجارتی ماڈل کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک نے اس حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کیا کہ غیر ملکی تجارت کے علاوہ جی ڈی پی میں نمو کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

ورلڈ بینک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 1999 میں عالمی تجارت کا عالمی معیشت میں حصہ 45.5 فیصد تھا جو کہ 2019 میں بڑھ کر 58.2 فیصد ہوگیا لیکن پاکستان کی جی ڈی پی میں غیر ملکی تجارت کا حصہ 26 فیصد ہے۔

کسی بھی پائیدار تجارتی ماڈل کی تشکیل سے پہلے معیشت کی ترقی میں بڑھتی ہوئی بیرونی تجارت کی اہمیت کا اعتراف ضروری ہے، مطلب غیر دانشمندانہ طور درآمدات روکنے کے بجائے پالیسی سازوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ صنعتیں درآمدای سامان کے ذریعے بیش قیمتی برآمدی اشیا بنائیں۔

پاکستان کے تجارتی ماڈل کے دھانچے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم بڑی تعداد میں اشیا کی پیداوار میں اضافہ نہیں کرتے اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہماری سرمایہ کاری بہت محدود ہے، اگرچہ ملک میں موبائل فونز تیار کیے جارہے ہیں اور ان کی برآمد کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم ہمیں اس کی برآمد پہلے ہی شروع ہوجانی چاہیے تھی۔

پاکستان کے تجارتی ماڈل کو اس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہیے جس سے بیرونی اشتراک سے ذریعے ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں