'وفا شاید دنیا میں تھی ہی نہیں یا پھر اس زمانے میں کسی نے کی ہی نہیں۔ مجھ سے کسی ایسے شخص نے تیر اندازی کا علم نہیں سیکھا جس نے آخرکار مجھے ہی اپنے تیروں کا نشانہ نہ بنایا ہو۔'

رابرٹ والٹر ایک 'مہم جو ' اور بحری جہاز کا کپتان تھا۔ وہ دنیا کے دُور دراز کے علاقوں میں گھومتا رہتا تھا۔ اسے اپنی بہن مارگریٹ بہت پیاری تھی، وہ جہاں بھی جاتا اپنی بہن کو خط و کتابت کے ذریعے سے اپنا احوال بیان کرتا رہتا۔

اس نے خطوط کے ایک سلسلے میں اپنی بہن کو بتایا کہ کیسے وہ قطب شمالی کے برف زاروں میں پھنس جاتا ہے۔ ایک دن اس نے برف پر ایک بہت ڈراؤنی دیو قامت مخلوق کو گزرتے دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا۔ وہ اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اگلے دن دنیا کے اس ویران حصے میں اس نے ایک اجنبی کو برف کے میدان میں نڈھال پایا۔ اس نے اسے اپنا نام وکٹر بتایا۔ وکٹر نے اسے ایک ناقابلِ یقین کہانی سنائی کہ وہ کیسے قطب شمالی کے برف کے میدانوں میں اکیلا پہنچ گیا۔

پڑھیے: ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ بیٹیاں پرایا نہیں اپنا دھن ہیں!

وکٹر نے بتایا کہ، وہ سوئٹزرلینڈ کے خوشحال خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین اسے بہت پیار کرتے تھے، اس کی والدہ بہت نیک دل خاتون تھیں۔ اس کے 2 چھوٹے بھائیوں کے ہوتے ہوئے اس کے والدین نے ایک یتیم لڑکی کو گود لے لیا تھا جس کا نام الزبتھ تھا۔ وکٹر شروع سے ہی الزبتھ کو پسند کرتا تھا۔ ایک دن وکٹر کی ماں اچانک بیمار پڑگئیں، آخرت کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ الزبتھ اور وکٹر شادی کرلیں۔

وکٹر اپنی ماں کی وفات پر بہت رنجیدہ ہوا۔ اس نے اپنی ساری توجہ سائنس کے علم کے حصول پر مبذول کرلی۔ اس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر کا آرام و سکون چھوڑ کر جرمنی کی راہ لی۔ یونیورسٹی میں اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد بن گیا کہ کسی طرح سے قبرستان سے حاصل کیے گئے مردہ اجسام پر تجربہ کرکے ان میں زندگی کی رمق ڈال دے۔ وہ اپنے کام میں اتنا مگن ہوا کہ اپنی صحت، خاندان اور دوستوں تک کو بھول گیا۔

ایک اندھیری رات جب بادل گرج رہے تھے اور بارش ہو رہی تھی، وہ اپنی تجربہ گاہ میں ایک مردہ جسم پر تجربہ کر رہا تھا تو آخرکار وہ کامیاب ہوگیا۔ اس کے عجیب الخلقت 'مونسٹر (عفریت)' میں جان پڑگئی اور وہ جی اٹھا مگر اس کے جثے کے مکروہ پن کو دیکھ کر وکٹر انتہائی خوفزدہ ہوگیا اور اس نے گھر سے باہر چھلانگ لگادی اور بھاگتا ہوا اپنے دوست ہنری کے پاس پہنچ گیا جو اس وقت اسی شہر میں تھا۔

پڑھیے: پاکستان میں بیوروکریسی کا گرتا ہوا معیار اور بے ہودہ پالیسیاں

اس واقعے کے بعد وکٹر بیمار پڑگیا تھا مگر ہنری کے ساتھ اور دیکھ بھال سے وہ پھر سے صحتیاب ہوگیا۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہوا اور گھر پہنچنے ہی والا تھا کہ اسے خبر ملی کہ اس کے چھوٹے بھائی ولیم کو کسی نے قتل کردیا ہے جس کا الزام ان کے پُرانے گھریلو ملازم جسٹن پر لگا۔ مگر وکٹر کو معلوم تھا کہ یہ قتل اس کی تخلیق کردہ 'بلا' کا ہے، مگر وہ دوسروں کو کیسے یقین دلاتا؟ بے قصور جسٹن کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں پھانسی چڑھا دیا گیا۔

ایک دن وکٹر پریشانی کے عالم میں پہاڑیوں پر گھوم رہا تھا کہ اچانک اس کا 'مونسٹر (عفریت)' اس کے سامنے آگیا جیسے وہ وکٹر کا پیچھا کر رہا ہو۔ وکٹر یہ جان کر حیران رہ گیا کہ 'عفریت' نے نہ صرف بولنا سیکھ لیا ہے بلکہ بہت سی کتابیں پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ بھی کرلیا ہے۔ عفریت نے وکٹر سے اس دکھ کا اظہار کیا کہ وہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا اب وہ اس کے لیے اس کی ساتھی بھی بنائے کیونکہ وہ تنہائی کا شکار ہے۔ وکٹر نے اس سے وعدہ کرلیا کہ وہ اس کی ساتھی ضرور بنائے گا۔

خاکہ برنی رائٹسن
خاکہ برنی رائٹسن

وکٹر اور ہنری برطانیہ چلے گئے جہاں وکٹر ہنری سے الگ ہوکر ایک جزیرے پر چلا گیا تاکہ عفریت سے کیا گیا وعدہ پورا کرسکے۔ جب اس نے کام شروع کیا تو اسے خیال آیا کہ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اور یوں اس نے کام روک دیا۔ عفریت جو وکٹر پر نظر رکھے ہوئے تھا وہ وکٹر کے پاس آیا اور وعدہ پورا نہ کرنے کے سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے بولا کہ وہ وکٹر کی شادی والی رات واپس آئے گا۔ اس واقعے کے چند دن بعد عفریت نے غصے کی حالت میں وکٹر کے جگری دوست ہنری کو قتل کردیا۔

وکٹر اپنے دوست کے قتل کی خبر سُن کر دل برداشتہ ہوکر سوئٹزرلینڈ واپس چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد وکٹر نے الزبتھ سے شادی کا فیصلہ کرلیا مگر شادی والی رات وکٹر کے دل و دماغ میں خدشات کے سنپولیے رینگتے رہے کہ یہ رات اس کی زندگی کی آخری رات ہوگی۔ وکٹر کے خدشات درست نکلے مگر 'عفریت' نے وکٹر کے بجائے اس کی بیوی الزبتھ کو قتل کردیا۔ اس موت کی خبر سُن کر وکٹر کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان سانحات نے وکٹر کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ کچھ سنبھلا تو مجسٹریٹ کے پاس جاکر ساری بات بتائی مگر اس نے کچھ نہیں کیا۔ وکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنی تخلیق کردہ عفریت سے خود نمٹے گا اور اس کی تلاش میں یورپ سے ہوتے ہوئے قطب شمالی کے برف زاروں میں پہنچ گیا۔

والٹن نے بعد کے خطوط میں بتایا کہ ایک دن وہ وکٹر کے کیبن میں گیا تو اس نے وکٹر کو 'مونسٹر' کی بانہوں میں دیکھا۔ وکٹر سردی اور نامساعد حالات کی وجہ سے مرچکا تھا۔ عفریت نے جن لوگوں کو ناحق قتل کیا تھا ان سب اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرنے کے بعد قطب شمالی کی یخ بستہ رات کے اندھیرے میں کھو گیا جیسے وہ اپنے آپ کو ختم کرنے جا رہا ہو۔

یہ کہانی تھی میری شیلے کے شہرہ آفاق ناول 'فرینکنسٹائن: دی ماڈرن پرومیتھیس' کی جو تقریباً 200 سال پہلے 1818ء میں لارڈ بائرن، پرسی بی شیلے اور میری شیلے کے مابین ایک ڈراؤنی کہانی لکھنے کے مقابلے کے نتیجے میں سامنے آئی۔ وکٹر فرینکسٹائن کا تخلیق کردہ عفریت 'فرینکنسٹائن' کے نام سے مشہور ہوا حالانکہ یہ نام اس کے تخلیق کار کا تھا۔ اس ناول سے متاثر ہوکر ہولی وڈ میں بے شمار فلمیں بن چکی ہیں۔

میری شیلے
میری شیلے

پاکستان نے بھی چند فرینکنسٹائن اپنے ہاتھوں سے بنائے جو عدم تحفظ، انتہا پسندی اور کرپشن کے مرکب سے مل کر بنے۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستان پر 3 واقعات قہر بن کر ٹوٹے جن کے اثرات آج بھی محسوس ہوتے ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو حادثات و واقعات انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں وہ بھی جینز کے ذریعے اگلی نسل میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ 1970ء کے عشرے کی ابتدا میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح تقریباً 11 فیصد تھی جو آج ایک خواب دکھائی دیتی ہے۔ مگر جلد ہی اس دہائی کا ہم پر پہلا قہر ٹوٹا جب انہونی ہوکر رہی اور پاکستان دو لخت ہوگیا جس کے پاکستانی معاشرے پر نہایت بھیانک اثرات مرتب ہوئے جس بارے میں ہم بات ہی نہیں کرتے۔

آج کے دور کی غیر یقینی اور شدید 'نفسا نفسی' کی کڑیاں اسی حادثے سے جا ملتی ہیں۔ 1970ء کے عشرے کا دوسرا سانحہ معاشی تھا جب نیشنلائزیشن (قومیانے) کی پالیسی آئی۔

تیسرا دلخراش واقعہ 1977ء میں ایک سخت ترین آمر کی آمد تھا۔ ان 3 سانحات اور ان کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات نے جو 'مونسٹرز' پیدا کیے انہوں نے پاکستان کے وجود پر ان گنت چرکے لگائے جو ناسور بن چکے ہیں۔ انتہا پسندی کا کلچر اسی عرصے میں پروان چڑھا۔

مزید پڑھیے: تن کا کپڑا اور منہ کا نوالہ

نادر روزگار یونانی شاعر ہومر نے اوڈیسی میں ایک ملک کا ذکر کیا جہاں آدھے لوگ وہاں رہتے تھے جہاں سے سورج نکلتا تھا اور آدھے وہاں جہاں سورج غروب ہوتا تھا۔ اس کے بیچ میں کچھ بھی نہیں تھا۔

ہم بھی 2 انتہاؤں پر جی رہے ہیں۔ میانہ روی اور نرمی جسے ہمارے دین کی بھی اساس قرار دیا گیا وہ ہم میں نہیں رہی۔ ملکی سیاسی معاملہ ہو یا مذہبی ہم اپنے سوا کسی کے مؤقف کو سننے کے روادار نہیں۔

اب ہم اپنے ہی بنائے ہوئے 'مونسٹرز' کی بانہوں میں زرد چہرہ لیے پڑے ہیں مگر 1960ء کی دہائی کے آخر تک ہم ایسے تو نہ تھے؟ پاکستان کو اسلامی ممالک میں کلیدی حیثیت حاصل تھی، ہم جنوبی کوریا اور ملائیشیا سے کہیں آگے تھے، ہمارے معاشرے میں رواداری اور برداشت کا مادہ کہیں زیادہ تھا۔ اب اس دور کی تصاویر کو دیکھ کر میرے کانوں نیرہ نور کی محسور کن آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔

کبھی ہم خوبصورت تھے

کتابوں میں بسی

خوشبو کی صورت

سانس ساکن تھی

بہت سے ان کہے لفظوں سے

تصویریں بناتے تھے

پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر

دُور کی جھیلوں میں بسنے والے

لوگوں کو سناتے تھے

جو ہم سے دُور تھے

لیکن ہمارے پاس رہتے تھے

— احمد شمیم

ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ہمیں رواداری اور میانہ روی کے پودے کی آبیاری کرنی ہوگی۔ ایک کہاوت ہے جو چیز جہاں کھوئی ہو اسے وہیں تلاش کرنا چاہیے، لہٰذا ہمیں اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے کو ذرا رُکنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ ہمارے مسائل اتنے بھی پیچیدہ نہیں کہ ان کا کوئی حل نہ ہو؟ اس الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں گے تو یقیناً سلجھ جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

غلام مصطفی بلوچ Sep 24, 2021 12:04pm
بہت خوبصورت اور سبق آمیز تحریر ہے- ہمیں بحیثیت قوم سوچنا ہو گا اور 1960 کی دہائی میں واپس جا کر آپس میں رواداری - برداشت اور بھائی چارہ پیدا کرنا ہوگا- اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے دن بھی پھر بائیں گے اور دنیا میں عزت بھی بحال ہو جائے گی - ورنہ آج کل دنیا پاکستان کا نام سن کر ہی منہ پھیر لیتی ہے-
Umar Ali Sep 25, 2021 11:19am
ما شا اللہ بہت خوبصورت لکھا ہے۔ ہمارے معاشرے کا بلکل یہی حال ہے۔