کینیڈین وزیراعظم تیسری مرتبہ منتخب، واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2021
انتخابات میں کامیابی کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈیو عوام سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
انتخابات میں کامیابی کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈیو عوام سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

کینیڈا کے لبرل وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سخت مقابلے کے بعد قدامت پسند اُمیدوار کو شکست دے کر تیسری مرتبہ منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے البتہ وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ماہ جسٹن ٹروڈو نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن گزشتہ دونوں مرتبہ کے برعکس اس دفعہ انہیں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: جسٹن ٹروڈو نے 18 سال پہلے خاتون رپورٹر کو ہراساں کرنے کا الزام مسترد کردیا

پانچ ہفتوں تک چلائی جانے والی مہم کے بعد یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی ٹروڈو کے لیے گزشتہ دونوں مرتبہ کی نسبت اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ گزشتہ کچھ سالوں میں خصوصاً کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

انتخابات میں فتح کے بعد جسٹن ٹروڈو نے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ دے کر آپ نے لبرل ٹیم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور روشن مستقبل کا انتخاب کیا، ہم کووڈ-19 کے خلاف جنگ جلد ختم کرلیں گے اور ہم ہر کسی کے لیے کینیڈا کو آگے لے کر جائیں گے۔

فتح کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آپ ہمیں واضح مینڈیٹ دے کر دوبارہ اقتدار میں لائے ہیں تاکہ ہم اس وبا سے نمٹ کر آپ کو ایک روشن مستقبل دے سکیں اور ہم یہی کرنے کے لیے تیار ہیں۔

49 سال جسٹن ٹروڈو کو اس مرتبہ سخت انتخابی مزاحمت کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کامیابی کے حصول میں کامیاب رہے۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈین وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کیلئے پہلے مسلمان جج کو نامزد کردیا

چھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد ٹروڈو کی انتظامیہ میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں نظر آتے تھے اور ان کے لیے کینیڈا کے عوام کو قائل کرنا آسان نہ تھا کیونکہ 2015 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد وہ عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے تھے۔

انتخابات کے دوران پورا دن مختلف شہروں میں پولنگ اسٹیشن کے باہر عوام قطار میں کھڑے نظر آئے جن میں سے ایک ٹروڈو کے ضلع مونٹریال میں ووٹ ڈالنے والے 73 سالہ ڈگلس اوہارا بھی ہیں جو وزیر اعظم کی کارکردگی سے مایوس نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ وبا کے سلسلے میں انہوں نے آدھا کام تو ٹھیک کیا لیکن ساتھ ساتھ یاد دہانی کرائی کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وبا کے خاتمے تک انتخابات نہیں ہوں گے لیکن جیسے ہی انہیں لگا کہ وہ اکثریت حاصل کرسکتے ہیں تو انہوں نے الیکشن کا اعلان کردیا، میرا ماننا ہے کہ انہوں نے ہم سے جھوٹ بولا۔

ریاست اوٹاوا کی 25 سالہ ووٹر کائی اینڈرسن نے کہا کہ کینیڈا کا وبا سے نمٹنے کا طریقہ کار سے اہم مسئلہ تھا اور میرے خیال میں وبا کے حوالے سے وزیراعظم نے بہت اچھا کام کیا۔

مزید پڑھیں: جسٹن ٹروڈو دوسری مدت کیلئے کینیڈا کے وزیراعظم منتخب

72 سالہ لیز میئر بھی وزیراعظم اور ان کی انتظامیہ کے کاموں سے مطمئن نظر آئیں اور صحت کے بحران کے دوران حکومت کی مستقل مزاج پالیسی کی وجہ سے ٹروڈو کی کامیابی کے لیے پراُمید نظر آئیں۔

پارلیمانی اکثریت کے حصول کے لیے وزیراعظم نے مقررہ مدت سے دو سال قبل ہی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔

وہ نومبر 2015 سے ملک کے وزیراعظم ہیں اور وہ پہلے لیڈر تھے جو لبرلز کو تیسرے نمبر سے پہلے نمبر تک لانے میں کامیاب رہے تھے۔

البتہ اس نئی حکومت میں لبرلز واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے کیونکہ وہ 338 نشستوں کے ایوان میں 170 نشستیں جیتنے میں ناکام رہے اور اب انہیں ایک اتحادی حکومت تشکیل دینی پڑے گی۔

اب تک آنے والے 95 فیصد غیر حتمی نتائج کے بعد لبرل پارٹی نے 157 سیٹیں جیتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں قدامت پسند رہنما او ٹول نے منگل کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جسٹن ٹروڈو کو کال کر کے انہیں مبارکباد دی البتہ ابھی حتمی نتائج آنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اہلیہ کے کورونا سے متاثر ہونے کا خدشہ، جسٹن ٹروڈو نے خود کو قرنطینہ کرلیا

15 اگست کو انتخابات سے دو سال قبل ہی نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے عوام سے سوال کیا تھا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کووڈ-19 کے خلاف لڑائی ختم اور ملک کی بحالی کے لیے سب سے موزوں کون ہے۔

البتہ 38 روزہ انتخابی مہم کے بعد سامنے آنے والے ملے جلے نتائج اس بات کی عکاسی کررہے تھے کہ ایک اقلیتی حکومت کو اکثریتی حکومت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں