نور مقدم قتل کیس: سیشن عدالت 12 ملزمان کے خلاف 6 اکتوبر کو فرد جرم عائد کرے گی

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2021
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی درخواستِ ضمانت پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ - فائل فوٹو:چینج ڈاٹ او آر جی:فائل فوٹو
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی درخواستِ ضمانت پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ - فائل فوٹو:چینج ڈاٹ او آر جی:فائل فوٹو

اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے لیے 6 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے سماعت کی صدارت کی جس میں چالان کی کاپیاں، جو پولیس نے 9 ستمبر کو گزشتہ سماعت میں عدالت میں جمع کرائی تھیں، موجودہ ملزمان میں تقسیم کیں۔

اس کیس میں مجموعی طور پر 12 افراد پر فرد جرم عائد کی جائے گی جس میں نور مقدم کے قتل کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر، اس کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، تین گھریلو ملازم افتخار، جان محمد اور جمیل اور تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور سمیت چھ ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔

دوران سماعت تھراپی ورکس کے 6 ملازمین بھی 23 اگست کو ضمانت کے بعد عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

اگرچہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ آج کی سماعت میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے گی لیکن یہ جج کی صوابدید پر ہے کہ وہ ٹائم فریم کا فیصلہ کرے جس پر مقدمہ چلتا ہے۔

زیادہ تر کیسز میں جج ملزمان اور شکایت کنندگان کو تفتیشی رپورٹ کا مطالعہ کرنے اور اس کے ساتھ موجود شواہد کی جانچ کرنے کے لیے وقت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اسے فرد جرم کے مرحلے پر چیلنج کر سکیں۔

تاہم جج بعض صورتوں میں یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ تمام دلائل مقدمے کی سماعت کے مرحلے میں سنے جائیں گے جو الزامات طے ہونے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔

چالان میں خامیاں

پولیس نے 9 ستمبر کو قتل کا نامکمل چالان پیش کیا کیونکہ مبینہ قاتل ظاہر جعفر کے موبائل فون کی جانچ پڑتال ابھی باقی ہے اور اس کا ڈیٹا عدالتی ریکارڈ میں جمع کرانے کے لیے حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر انسپکٹر عبدالستار کے مطابق ملزم کے موبائل فون کو وقوعہ کے دن نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے ڈیٹا حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی تھی جس میں موبائل فون کی مرمت کی اجازت مانگی گئی تھی کیونکہ اس سے استغاثہ کے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے مفید شواہد مل سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: ہماری پولیس کو تفتیش کے دوران کڑیاں ملانا نہیں آتیں، جسٹس عامر فاروق

دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس کے چالان نے ظاہر جعفر کے فون کا بڑے پیمانے پر حوالہ دیا جسے وہ اکثر اپنے والدین اور دوسروں سے بات کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

چالان کے مطابق نور مقدم کا قتل ہونے کے بعد بھی ظاہر جعفر کا موبائل فون کام کر رہا تھا کیونکہ اس میں کہا گیا تھا کہ مبینہ قاتل کے والد ذاکر جعفر نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر اطمینان دلایا کہ اس کے لوگ اسے بچانے اور لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے راستے میں ہیں۔

اس سے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس سلیم اللہ خان بھی حیران ہوئے جنہوں نے ڈان کو بتایا کہ تفتیشی افسر کو موبائل فون کو شروع میں ٹھیک کرنے کے لیے درخواست دائر کرنی چاہیے تھی۔

سلیم اللہ خان نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پولیس نے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور حدود آرڈیننس کی دفعات نہیں لگائیں جس کی وجہ سے عدالت سے باہر تصفیہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'چونکہ جرم کو پیچیدہ بنایا جاسکتا ہے اس لیے ملزمان متاثرہ خاندان کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور اس تصفیے کو روکنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملزم مبینہ ریپ پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 376 کے تحت ٹرائل کا سامنا کرسکتا ہے'۔

واضح رہے کہ اسلام آباد سیشن کورٹ کے حالیہ اعدادوشمار نے انکشاف کیا ہے کہ 80 فیصد سے زائد مقدمات میں مبینہ زیادتی کے مجرموں کو عدالتوں نے کمزور پروسیکیوشن، ناقص تفتیش یا عدالت سے باہر تصفیے کی وجہ سے بری کردیا ہے۔

سینئر وکیل راجہ انعام امین منہاس نے کہا کہ پولیس نے زخمی تھراپی ورکر کو اس کیس میں بطور ملزم ملوث کر کے اپنا کیس کمزور کیا ہے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

انہوں نے کہا کہ 'وہ ایک اہم گواہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس نے مقتول کے خون میں لت پت جسم کو دیکھا اور ظاہر جعفر کے حملے کا شکار بنا تھا جس سے اسے شدید چوٹیں آئیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمی گواہ کی گواہی بہت اہمیت رکھتی ہے اس لیے زخمی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنالینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے چالان میں 18 گواہوں کا بھی حوالہ دیا گیا اور ان میں سے تقریباً تمام سرکاری اہلکار تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ منشیات سے متعلقہ کیسز کے علاوہ سرکاری افسران کے بیان کو آزاد نہیں سمجھا جاتا ہے اور ابتدائی بیان سے ان کے پیچھے ہٹنے کا امکان ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پولیس کو تفتیشی افسر کے بجائے مجسٹریٹ کے ریکارڈ کردہ ملزمان کے بیانات کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔

والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ظاہر جعفر کے والدین کی درخواستِ ضمانت پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

دوران سماعت نور مقدم کے اہلخانہ کے وکیل ایڈووکیٹ شاہ خاور نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ 'ہم نے کیس میں غیر ضروری گواہان کو شامل نہیں کیا، 18 گواہ ہیں جس میں پرائیویٹ گواہ دو ہی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم جلدی ٹرائل مکمل کرلیں گے، ضمانت نہ دی جائے' شواہد کے مطابق والدین ملزم سے رابطے میں تھے، جرم سے ان کا تعلق ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ٹرائل میں جو شواہد لائیں گے اس پر وہ جرح کرلیں گے، 'انتہائی بیہمانہ قتل' تھا، اس میں ضمانت نہ دی جائے'۔

پولیس حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے ہمیں موبائل فونز کی فرانزک رپورٹ آنا باقی ہے، ظاہر جعفر کے موبائل کی سکرین ٹوٹی ہوئی ہے جبکہ نور مقدم کے آئی فون کا پاس ورڈ بھی نہیں مل رہا۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'آج کل بہت ایکسپرٹ موجود ہیں جو سب کچھ کر لیتے ہیں، بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے آپ سے نہیں ہوتو تو مارکیٹ سے کوئی ہیکر ہی پکڑ لیں'۔

مزید پڑھیں: پولیس نے نور مقدم قتل کیس میں چالان جمع کرا دیا

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ تھراپی ورکس والوں اور پٹیشنرز (ظاہر جعفر کے والدین) کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی تھراپی ورکس والوں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں، ذاکر جعفر نے تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کو 7 بجے کے بعد دو کالز کیں، 6 بجکر 40 منٹ پر چوکیدار افتخار نے عصمت آدم جی کو کال کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ تھراپی ورکس والے اور پولیس کس وقت جائے وقوع پر پہنچے؟

پولیس نے جواب دیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق تھراپی ورکس والے 8 بجکر 6 منٹ پر پہنچے جبکہ پولیس 10 بجے وہاں پہنچی تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'اس کا مطلب ہے دو گھنٹے بعد پولیس پہنچی تھی'۔

دوران سماعت درخواست گزار وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ابھی نامکمل عبوری چالان عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس مرحلے پر کوئی بھی شواہد کہیں ثابت شدہ نہیں ہیں'، اس موقع پر اُن شواہد پر ضمانت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'یہ کیس ہمارے ملک میں کرمنل کیسز کا مستقبل طے کرے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'واقعاتی شواہد کو کیسے جوڑنا ہے اسے سب نے دیکھنا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

کیس کا پس منظر

27 سالہ نور مقدم 20 جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف-7/4 میں ایک رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔

مقتول کے والد شوکت علی مقدم کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل) کے تحت قتل کے مقام سے گرفتار ہونے والے ظاہر جعفر کے خلاف اسی روز فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی تھی۔

ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو 24 جولائی کو 'شواہد چھپانے اور جرم میں ملوث ہونے' کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس ترجمان کے مطابق انہیں شوکت مقدم کے بیان کی بنیاد پر تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھے جبکہ ان کی بیوی اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھی اور جب وہ شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو اسلام آباد میں اپنے گھر سے غائب پایا۔

انہوں نے جب نور مقدم کو کال کی تو اس کا سیل فون نمبر بند تھا جس پر انہوں نے اس اس کی تلاش شروع کی۔

کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کرکے بتایا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آجائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ایک ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا تھا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات 10 بجے کے قریب متاثرہ لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا طلب کی ہے۔

پولیس نے بعد میں کہا کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے جبکہ اس کے ڈی این اے ٹیسٹ اور فنگر پرنٹس بھی اس کے قتل میں ملوث ہونے کا ثبوت ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں