لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے فیصلہ سنایا ہے کہ مسلم فقہا بچے کی ذہنی صلاحیت کو اسلام قبول کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق ندیم نے عیسائی برادری کے ایک رکن کی جانب سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مذہب کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے، یہ عقیدے کا معاملہ ہے۔

مزید پڑھیں: جبری مذہب تبدیلی کی وضاحت اسلامی نظریاتی کونسل کرے گا، پارلیمانی کمیٹی

رکشہ ڈرائیور گلزار مسیح نے اپنی بیٹی کی بازیابی کی درخواست دائر کی تھی جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان شخص سے شادی کرلی تھی۔

فیصل آباد کے گلزار مسیح نے الزام لگایا تھا کہ اس کی نابالغ بیٹی چشم کنول کو محمد عثمان اور اس کے ساتھیوں نے اغوا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے لڑکی کو بازیاب کرا لیا لیکن والدین کی تحویل میں دینے سے انکار کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور عثمان کے نکاح میں ہے۔

گلزار مسیح نے کہا کہ اس نے فیصل آباد کی ایک مقامی عدالت سے رجوع کیا لیکن عدالت نے بیٹی کی بازیابی کے لیے ان کی درخواست خارج کر دی۔

یہ بھی پڑ ھیں: وزیر مذہبی امور 18 سال سے کم عمر افراد کی تبدیلی مذہب کے حامی

گزشتہ ہفتے ایک مختصر حکم جاری کرنے کے بعد درخواست پر اپنے تفصیلی فیصلے میں جسٹس طارق ندیم نے ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 20 شہریوں کو اپنے عقیدے کی تبلیغ کا حق دیتا ہے ،لیکن یہ حق کسی کو مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس طارق ندیم نے ریماکس دیے کہ جبری تبدیلی یا دوسروں پر عقائد مسلط کرنا مذہب کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ قرآن پاک اور نہ ہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں اسلام قبول کرنے کی کم از کم عمر کا تعین کیا گیا ہے۔

جسٹس طارق ندیم نے ریماکس دیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صرف 10 برس کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔

جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس دے کہ مسلم فقہا بچے کی ذہنی صلاحیت کو اس کے تبدیلی مذہب کے وقت انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا

جج نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر فیصلہ کرنے کی عمر کو وہ عمر تسلیم کی جاتی ہے جب کوئی بلوغت حاصل کرتا ہے۔

جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے حقائق پر مبنی تحقیقات نہیں کر سکتی کیونکہ یہ سوال کہ آیا تبدیلی مذہب فاسد ہوگیا یا دوسری صورت میں شواہد ریکارڈ کیے بغیر اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے ایف آئی آر میں اپنی بیٹی کی عمر 17 سال بتائی ہے اور یہ ریکارڈ سے الگ ہو گیا ہے کہ اس نے مدعا علیہ سے شادی کی تھی اور فوجداری ضابطہ کی دفعہ 164 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا تھا۔

جسٹس طارق ندیم نے بتایا کہ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے فیصلے میں خود مختار ہے اور اپنی مرضی سے اور بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کیا تھا اور کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے گلزار مسیح کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں