پاکستان کو بین الاقوامی پہچان کے بغیر کابل کی مدد میں مشکلات کا سامنا

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2021
افغانستان میں تکنیکی اور مالیاتی ماہرین کے بڑے پیمانے پر ملک سے چلے جانے سے خلا پیدا ہوگیا ہے—تصویر: اے ایف پی
افغانستان میں تکنیکی اور مالیاتی ماہرین کے بڑے پیمانے پر ملک سے چلے جانے سے خلا پیدا ہوگیا ہے—تصویر: اے ایف پی

افغانستان میں خوراک کے بحران جیسے ابھرتے ہوئے چیلنجز کے باوجود حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی عدم موجودگی میں پاکستان، جنگ زدہ ملک افغانستان میں عبوری حکومت کو تکنیکی، مالی اور ماہرین کی مدد فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کلیدی اسٹیک ہولڈرز نے ہنگامی پروگراموں کے تحت صلاحیت میں اضافے اور تکنیکی مہارت کے ذریعے نئی افغان انتظامیہ کی مدد کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا، لیکن بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسے افغان حکومت کو دنیا کے تسلیم کرنے کے بغیر کیسے آگے بڑھایا جائے۔

افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے اجلاس میں وزیر قومی تحفظ خوراک و تحقیق سید فخر امام، مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ڈاکٹر رضا باقر، واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیئرمین (ر) لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: اشیائے خور و نوش سے لدے 17 امدادی ٹرک افغانستان کے حوالے

باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ افغان انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فوراً بعد تکنیکی اور مالیاتی ماہرین کے بڑے پیمانے پر ملک سے چلے جانے سے پیدا ہونے والا خلا ہے۔

اس برین ڈرین (اعلیٰ صلاحیت کے حامل افراد کے قحط) نے بڑے اداروں خاص طور پر تکنیکی اور مالیاتی نوعیت کے اداروں کو بجلی، طبی اور مالی سہولیات جیسی ضروری خدمات کو سنبھالنے کے ہموار آپریشن سے قاصر کر دیا۔

اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اسٹیٹ بینک انتظامیہ، افغانستان سے عملے کو پاکستان بلا کر ان کے لیے ہنگامی ٹریننگ کورسز کا انتظام کرسکتی ہے۔

اس وقت افغان مرکزی بینک اہلیت سے محروم ہے اور اسے مالیاتی انتظامات کے لیے فوری طور پر بین الاقوامی تنظیم نو اور صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کیلئے انسانی بنیادوں پر امداد بھیج رہے ہیں، دفتر خارجہ

اسی طرح واپڈا کی انتظامیہ پاور سیکٹر ٹیموں کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد کر سکتی ہے کیونکہ بجلی کے بریک ڈاؤن کے نتیجے میں دارالحکومت کابل جیسے بڑے شہروں میں پانی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات میں رکاوٹ آسکتی ہے۔

ایس بی پی اور واپڈا انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ مختصر ہنگامی کورسز کے لیے تیار رہیں تاکہ ان کی ٹیمیں چھوٹے سے موقع سے بھی فوری طور پر فائدہ اٹھا کر تکنیکی مدد اور تربیت کو توسیع دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوجائیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ افغانستان کے حوالے سے 'ضرورت کا مکمل جائزہ' بھی ہونا چاہیے اور پاکستان کی طرف سے امداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، ترجیحی طور پر اس طرح کی ضرورت کی تشخیص کچھ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مربوط ہونی چاہیے۔

اس سلسلے میں جاری ایک بیان کے مطابق عمر ایوب نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں باہمی اقتصادی معاونت کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ افغان عوام کی زندگی اور معاش کو بچانے کے لیے انسانی بنیادوں پر فوری تکنیکی اور مالی مدد درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'دنیا افغانستان میں حکومت کی مدد کرے'

وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں 14 کروڑ 83 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی لاگت کے 20 منصوبے شروع کر رکھے ہیں جبکہ افغانستان میں 22 کروڑ 18 لاکھ 30 ہزار ڈالر کے 9 دیگر منصوبے بھی زیر عمل ہیں۔

علاوہ ازیں پاکستان، افغان طلبا کو مختلف شعبوں میں 3000 علامہ محمد اقبال اسکالرشپس بھی فراہم کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں