پیپلز پارٹی دور کے قانون کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2021
نظرِثانی درخواست اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کی جانب سے دائر  کی گئی —تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
نظرِثانی درخواست اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کی جانب سے دائر کی گئی —تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 17 اگست کے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے جس سے تقریباً 17 ہزار سرکاری ملازمین بے روزگار ہوگئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم نے اپنے عہدے کے آخری دن 17 اگست کو پی پی پی دور کے برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (ایس ای آر اے) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا، جس کے تحت 90-1989 میں متعدد افراد کو ملازمت یا ترقی دی گئی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے 17 اگست کا فیصلہ واپس لینے اور اس دوران اس کی کارروائی معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

مذکورہ فیصلے نے ہنگامہ برپا کر دیا تھا اور جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

درخواست میں 93 افراد کو فریق بنایا گیا جس میں زیادہ تر وہ شامل تھے جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوئے اور کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے باوجود ایس ای آر اے کو غیر قانونی قرار دیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس ایکٹ سے براہِ راست مستفید ہونے والے ملازمین کی بڑی تعداد کو اب تک کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا جو عدالت میں سنوائی کا موقع ملے بغیر اپنی ملازمت کھو چکے ہیں یا کھو دیں گے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 2010 میں عدالتی حکم کے باوجود اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) کو مطلوبہ لازمی قواعد کے حوالے سے کوئی باقاعدہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

چنانچہ ایس ای آر اے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دینے سے قبل اس ایکٹ سے متعلق معاملات پر اٹارنی جنرل کو سنا نہیں گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ملازمین کی برطرفی کا معاملہ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین میں گرما گرم بحث

جس کے نتیجے میں 17 اگست کا فیصلہ مادی خرابیوں کا شکار ہوا کیونکہ یہ غلام رسول کیس میں سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلے سے لاعلمی میں جاری کیا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگرچہ حکومت سرکاری ملازمت میں میرٹ، شفافیت اور مناسب طریقہ کار کے اصول کی مکمل حمایت کرتی ہے لیکن ایس اے آر اے سے مستفید ہونے والے سابقہ برطرف ملازمین کو مکمل طور پر بےروزگار نہیں کیا جا سکتا، ان کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔

درخواست میں تمام فریقین کے حقوق اور مفادات کو زیادہ شفاف اور میرٹ پر مبنی معیار پر متوازن کرنے کے لیے زیادہ منصفانہ انداز اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

ساتھ ہی درخواست میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ یہ ایکٹ نہ تو سرکاری ملازمین کی خدمات کے لیے تھا اور نہ ہی ان پر لاگو کیا گیا جن کی سروس سول سرونٹس ایکٹ 1973 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کے تحت ہوتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا ریلوے ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم

درخواست میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اس پر قانون کو توڑنے کا اصول لاگو نہیں کیا گیا اور پورے ایکٹ کو ہی آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا گیا حالانکہ جس سے کسی بھی موجودہ ملازم کے حق یا مفاد کو متاثر کیے بغیر ملازمین کی سروس کی بحالی یا ریگولرائزیشن کا تحفظ ہو، اسے عدالت بچا سکتی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ ایس اے آر اے کو 6 دسمبر 2010 کو صدر نے منظور کیا تھا اور اسی سال 8 دسمبر کو یہ عام معلومات کے لیے شائع ہوا تھا۔

درخواست میں مزید بتایا گیا کہ جب برطرف ملازمین کو بحال اور ریگولرائز کیا گیا تو اداروں میں سنیارٹی اور ترقی کے تنازعات پیدا ہوئے، اس کے نتیجے میں جو ملازمین پہلے ہی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے انہیں بحال شدہ ملازمین سے ایک درجہ آگے ترقی دے دی گئی تھی۔

درخواست کے مطابق 17 اگست کا فیصلہ سناتے ہوئے اہم قانونی اور مادی حقائق عدالت عظمیٰ کے نوٹس میں نہیں آئے اور فیصلے میں ریکارڈ کے حوالے سے غلطیاں اور خامیاں شامل ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ موجودہ اور دیگر ملازمین جنہوں نے میرٹ ، قابلیت اور شفاف عمل پر اپنی ملازمتیں حاصل کیں، ان کے تمام جائز حقوق اور مفادات کے مکمل تحفظ کے لیے ایک شفاف طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں