سپریم کورٹ کا ریلوے ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو / اے ایف پی
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی — فائل فوٹو / اے ایف پی

سپریم کورٹ نے ریلوے میں مکمل اوور ہالنگ اور ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دے دیا اور ایک ماہ میں ریلوے ملازمین اور آپریشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں ریلوے ملازمین کی سروس مستقلی کے حوالے سے دائر مختلف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری ریلوے سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ 'ٹی ایل اے' کے تحت عارضی طور پر کتنے ملازمین بھرتی کیے گئے، جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ ٹی ایل اے میں 2 ہزار 712 ملازمین ہیں۔

سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ٹی ایل کے ملازمین کو تنخواہ مقامی حکومت دیتی ہے جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تو پھر یہ ملازمین ریلوے کے کیسے ہوئے۔

جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دور میں ریلوے کے کتنے حادثے ہوئے ہیں، آپ سے ریلوے نہیں چل رہی ہے، چھوڑدیں ریلوے، آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں ہیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ میں وفاقی ملازم ہوں، کہیں اورچلا جاؤں گا۔

مزید پڑھیں: ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، سمجھ نہیں آرہا محکمے کا کیا بنے گا، چیف جسٹس

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریلوے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں اور حکومت آپ کو آئے دن 5 کروڑ کا گرانٹ دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ریلوے میں ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں، جس پر سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ 76 ہزار ملازمین ہیں، 142 مسافر ٹرینیں اور 120 مال بردار ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن اس وقت کورونا کی وجہ سے صرف 43 مسافر ٹرینیں فعال ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آپ نے 76 ہزار ملازمین رکھے ہیں، ریلوے کا نظام چلانے کے لیے تو 10 ہزار کافی ہیں، آپ کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہوا ہے تو یہ ملازمین کیا کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کے کمپیوٹرز پر تو دھول پڑی ہوئی ہے جبکہ میڈیا میں آرہا ہے کہ وزیر اعظم ریلوے میں کوئی اصلاحات کر رہے ہیں۔

سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ 6 نکات پر اصلاحات کر رہے ہیں جبکہ 76 ہزار ملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے تقریر نہ کریں، ہمیں سب پتہ ہے ریلوے میں کیا ہورہا ہے، ریلوے میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے، پرسوں جو نقصان ہوا بتا دیں اس کی ذمہ داری کس کی ہے۔

مزید پڑھیں: محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی سے کی گئیں 845 تعیناتیاں معطل

انہوں نے سیکریٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر کام کریں، فیلڈ پر جاکر اپنے ملازمین کو دیکھیں، ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے۔

عدالت نے سیکریٹری ریلوے کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریلوے میں مکمل اوور ہالنگ اور 76 ہزار ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دیا۔

عدالت نے کہا کہ ریلوے، فوری طور پر اپنا اصلاحاتی عمل شروع کرے، غیر ضروری اور نااہل ملازمین کی چھانٹی کرے۔ عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے ملازمین اور آپریشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کا پورا محکمہ اتنا کرپٹ ہے کہ سوچ بھی نہیں سکتے، 76 ہزار ملازمین سے ریلوے کبھی منافع نہیں دے سکتا، ہمیں ٹی ایل اے ملازمین کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریلوے کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، ریلوے افسران بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ اہم عہدوں پر عارضی تقرریاں ہورہی ہیں، سمجھ نہیں آرہا ریلوے کا کیا بنے گا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے میں سیکریٹری ریلوے کو آج طلب کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے کہیں محکمہ ریلوے دیوالیہ نہ ہوجائے، شیخ رشید

خیال رہے کہ ستمبر 2019 میں ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے بھی بھرتیوں کے نئے طریقہ کار کا آغاز ہوا تھا۔

اسی سلسلے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتیاں کی گئی تھیں تاہم اس پر پاکستان ریلویز ایمپلائیز (پریم) یونین نے عدالت عالیہ سے رجوع کرلیا تھا۔

بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے پاکستان ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے 845 افراد کی تعیناتیاں معطل کردیں تھیں اور درخواست میں نامزد فریقین سے جواب طلب کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں