'پینڈورا پیپرز': 'حکومت نے قانونی ٹیم کا اہم اجلاس طلب کرلیا'

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
وزیراعظم واضح کرچکے ہیں کہ پنڈورالیکس کی تحقیقات ہوں گی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات - فائل فوٹو:اے پی پی
وزیراعظم واضح کرچکے ہیں کہ پنڈورالیکس کی تحقیقات ہوں گی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات - فائل فوٹو:اے پی پی

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت نے پینڈورا لیکس کے معاملے پر قانونی ٹیم کا اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔

سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس کے دوران انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم واضح کرچکے ہیں کہ پینڈورا لیکس کی تحقیقات ہوں گی اور اسی سلسلے میں ساڑھے 6 بجے قانونی ٹیم کا اجلاس ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر کی اعلیٰ شخصیات کے مالیاتی امور کے حوالے سے ایک بڑی بین الاقوامی تحقیق 'پینڈورا پیپرز' میں کابینہ کے اہم اراکین، وزرا، میڈیا، فوجی افسران کے رشتہ دار اور طاقتور تاجر سمیت پاکستان کی اہم ترین اشرافیہ کے نام شامل ہیں۔

تحقیقاتی صحافیوں کے عالمی ادارے (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری کیے گئے پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کابینہ کے اراکین سمیت وزیر اعظم عمران خان کے اندرونی حلقے کے افراد، کابینہ اراکین کے اہلخانہ، سیاسی اتحادی اور بڑے مالی معاونین، خفیہ طور پر آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹس کے مالک ہیں اور بیرون ملک کروڑوں ڈالر کی دولت چھپائے ہوئے ہیں۔

قانون کے تحت اگر کمپنی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہو تو آف شور کمپنی قائم کرنا جرم نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے ان کمپنیوں کو اپنے گوشواروں میں اثاثے قرار نہیں دیا ہے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'پی ٹی وی چلارہا ہوں، فلاحی ادارہ نہیں'

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس کے دوران سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ 'پی ٹی وی میں تنخواہوں کی ادائیگی کا کوئی طریقہ کار نہیں، 75 ملازمین کو گزشتہ 5 سال سے ڈیلی ویجز پر رکھا ہوا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک شخص 4 لاکھ روپے سے 9 لاکھ روپے تک پہنچ سکتا ہے تو ایک بچی 50 ہزار روپے سے اوپر کیوں نہیں بڑھ سکتی، جب دل چاہتا ہے تو 2، 2 لاکھ روپے ایک شخص کی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز: حکومتوں، ریاستوں کے سربراہان آف شور اثاثوں کے مالک نکلے

اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'سب سے زیادہ ظلم پی ٹی وی، اسٹیل مل اور پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے ساتھ ہوا، 2008 سے 2018 تک 2200 لوگ بھرتی کیے گئے جن میں سے 80 فیصد میٹرک پاس ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'پی ٹی وی نے پہلی مرتبہ ایک ارب 30 کروڑ روپے منافع حاصل کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی وی اسپورٹس کو 3 ماہ میں ایچ ڈی کردیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی ایک نیا چینل لا رہے ہیں'۔

فواد چوہدری نے عرفان صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ بچوں کی تنخواہ میں اضافہ چاہتے ہیں تو اپنی تنخواہ ہمیں دے دیں'۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ 'آپ نے اتنا منافع کمایا ہے تو اس میں سے دے دیں'، اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ 'میں فلاحی ادارہ نہیں چلا رہا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آپ اپنی تنخواہیں ہماری طرف شفٹ کردیں تو ان بچوں کی تنخواہ بڑھا دیں گے'۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ 'اگر ماضی میں بھرتیاں زیادہ کی گئیں تو موجودہ حکومت نے آکر کیوں مزید بھرتیاں کیں؟'

فواد چوہدری نے جواب دیا کہ 'جو حالیہ بھرتیاں کی گئیں ہیں وہ کوٹہ سسٹم کے تحت کی گئی ہیں'۔

'معلومات تک رسائی سے متعلق ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہیں'

اجلاس میں معلومات تک رسائی سے متعلق ترمیمی بل 2021 پر بھی غور کیا گیا۔

اس حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہیں'۔

کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ 'ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ تفصیلات سامنے لائے اور خود نہ لائیں یہ کیسے ممکن ہے، صرف یہ کہنا کہ میرے گریبان میں نہ جھانکیں، درست نہیں'۔

'فیک نیوز پر تفصیلی بحث کی جائے'

اجلاس کے دوران جعلی خبروں (فیک نیوز) کے معاملے پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'فیک نیوز پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ‘یہ حکومت فیک نیوز اور فیک الزامات کے ساتھ چلتی ہے’

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے اور ایک کمیٹی بنادی گئی جس میں ڈرافٹ شئیر کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فیک نیوز کے خلاف پوری دنیا میں قانون سازی ہورہی ہیں، اسی چیز کو ہم آگے لے کر بڑھ رہے ہیں، موجودہ دنیا میں فیک نیوز اور اصل خبر میں فرق دیکھنا ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ 'کل رات بھی ایک فیوز نیوز کا ایشو بنا اور کسی نے پی ٹی وی کا پوسٹر چھاپ دیا'۔

اس پر فواد چوہدری نے بتایا کہ پی ٹی وی کا پوسٹر سوشل میڈیا سے چلا تھا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فیک نیوز پر تفصیلی بحث کی جائے، اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ فیک نیوز مجوزہ بل کا حصہ ہے، بل آیا تو بحث کرلیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں