اردن کی عدالت نے پینڈورا پیپرز کا دعویٰ 'مسخ شدہ'، سیکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
رپورٹس میں غلطیاں شامل ہیں اور حقائق کو مسخ اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، رائل کورٹ آف اردن - فائل فوٹو:اے پی
رپورٹس میں غلطیاں شامل ہیں اور حقائق کو مسخ اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، رائل کورٹ آف اردن - فائل فوٹو:اے پی

اردن کے رائل کورٹ نے پینڈورا پیپرز میں کیے گئے 'مسخ شدہ' دعووں کو مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ شاہ عبداللہ دوم نے بیرون ملک جائیداد کے لیے آف شور کمپنیوں کا نیٹ ورک بنایا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا کہ رپورٹس میں 'غلطیاں شامل ہیں اور حقائق کو مسخ اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے'۔

عدالت نے کہا گیا کہ 'جائیدادوں کا پتا ظاہر کرنا سلامتی کی ایک واضح خلاف ورزی اور ان کی عظمت اور ان کے خاندان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے'۔

مزید پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': 'حکومت نے قانونی ٹیم کا اہم اجلاس طلب کرلیا'

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بادشاہ نے جائیدادوں اور اس سے متعلقہ تمام اخراجات کو 'ذاتی طور پر فنڈ' کیا تھا۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی تحقیقات، جس میں دنیا بھر کے میڈیا کے تقریباً 600 صحافیوں نے حصہ لیا، 14 مالیاتی خدمات کمپنیوں کے ایک کروڑ 19 لاکھ دستاویزات کے لیک ہونے پر مبنی ہے۔

عبداللہ دوم پر مجرمانہ غلطی کا الزام نہ لگاتے ہوئے رپورٹس میں الزام لگایا گیا کہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے تاکہ خاموشی سے مالیبو اور کیلیفورنیا سے واشنگٹن اور لندن تک عیش و آرام کی رہائشیں خرید سکیں۔

اردن کی رائل ہشمت کورٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ 'یہ کوئی راز نہیں ہے کہ بادشاہ، امریکا اور برطانیہ میں متعدد اپارٹمنٹس اور رہائش گاہوں کے مالک ہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ اس میں کچھ غیر معمولی اور غیر مناسب نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بادشاہ، ان جائیدادوں کو سرکاری دوروں کے دوران استعمال کرتے ہیں اور وہاں عہدیداروں اور غیر ملکی معززین کی میزبانی کرتے ہیں، بادشاہ اور ان کے خاندان کے افراد بھی نجی دوروں کے دوران ان میں سے چند جائیدادوں میں وقت گزارتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں کن کن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں؟

بیان میں کہا گیا کہ جائیدادوں کے پتے کو انہیں چھپانے کے لیے نہیں سیکیورٹی اور پرائیویسی کے خدشات کی وجہ سے تشہیر نہیں کی گئی تھی۔

اس طرح چند میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے ان جائیدادوں کے پتے کو ظاہر کرنے کا عمل ایک واضح حفاظتی خلاف ورزی ہے اور بادشاہ کی عظمت اور ان کے خاندان کی حفاظت کے لیے خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کوئی بھی الزام جو ان نجی املاک کو عوامی فنڈز یا امداد سے جوڑتا ہے، وہ بے بنیاد اور حقائق کو مسخ کرنے کی جان بوجھ کر کوششیں ہیں'۔

بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ 'تمام عوامی مالی اور بین الاقوامی امداد کا پیشہ ورانہ آڈٹ کیا جاتا ہے'۔

معاشی بدحالی

واضح رہے کہ پینڈورا لیکس لاکھوں ریکارڈوں کا ڈھیر ہے جو مختلف عالمی رہنماؤں کو دولت کے خفیہ ذخیروں سے جوڑتا ہے اور یہ پاناما پیپرز کے طور پر جانے والے لیک کے انکشاف کے پانچ سال بعد سامنے آیا ہے کہ کس طرح دولت مندوں نے بڑی رقم کو چھپا رکھا تھا جن کا قانون نافذ کرنے والے ادارے پتا نہیں لگا سکے تھے۔

لیک ہونے والی دستاویزات اس وقت سامنے آئی ہیں جب اردن کی عوام اپنے حکمرانوں سے مایوس نظر آرہے ہیں۔

ملک میں معاشی مشکلات، نوجوانوں کی بے روزگاری اور سیاسی اصلاحات پر پیش رفت کی کمی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج دیکھا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز: میڈیا مالکان، فوجی افسران کے اہلِ خانہ، کاروباری افراد کے مزید ناموں کا انکشاف

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ شاہ عبداللہ نے ریاستی اداروں میں کرپشن سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا جہاں اقربا پروری عروج پر ہے۔

انہوں نے حکام پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے گزشتہ سال شہریوں کی آزادیوں کو دبانے اور عوامی آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے کورونا وائرس وبائی امراض کو روکنے میں مدد کے لیے سخت ایمرجنسی قوانین کا استعمال کیا۔

اس الزام کو حکومت نے مسترد کردیا تھا اور اب قوانین کو زیادہ تر ختم کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اردن سب سے زیادہ امریکی اور مغربی امداد وصول کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Legal Oct 04, 2021 07:17pm
Very right approach - States should not allow themselves to blindly follow such reports and consequently put their own citizens under trial. The tax authorities may collect all the relevant information and if they succeed then they may issued notices to the concerned citizen - The matter does not deserve any further attention