ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاری حقِ عزت کو مجروح کرتی ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2021
—فوٹو: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
—فوٹو: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے ریمارکس دے ہیں کہ کسی شخص کی ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاری یا اسے حراست میں رکھنا اس کے حقِ عزت کو مجروح کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسانی وقار اس تصور کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہر شخص مساوی اہمیت رکھتا ہے اور کسی کی زندگی اور آزادی کسی دوسرے شخص کی زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی شمولیت کے امکان پر ٹوئٹر صارفین کا اظہارِِ مسرت

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مکمل ثبوت کے بغیر لوگوں کو حراست میں لینے کے عام رویے کے پس منظر میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں یہ ریمارکس دیے۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

بینچ نے محمد اقبال خان نوری کی جانب سے 26 جون 2019 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی تھی جس نے ان کی ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی۔

اپیل کنندہ کو نیب نے ایک تفتیش کے دوران گرفتار کیا اور حراست میں لیا جو اب بھی جعلی بینک اکاؤنٹس اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، سپریم کورٹ

درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں 2 علحیدہ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ اس کیس کے حتمی فیصلے تک ضمانت پر رہائی دی جائے لیکن ہائی کورٹ نے 26 جون 2019 کو ان درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔

جسٹس منظور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئینی عدالت میں کسی فرد کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے لیے مواد/ثبوت کافی ہونا چاہیے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے تحت، آئینی عدالتیں کسی شخص کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں، آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ چیئرمین نیب یا نیب کے کسی دوسرے مجاز افسر کی جانب سے کسی شخص کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے دیے گئے حکم کا عدالتی جائزہ لے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی شخص کو بغیر کسی قابل اعتراض مواد/شواہد کے گرفتار کرنا اور حراست میں لینا، اس کے منصفانہ مقدمے کے حق کو مجروح کرے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں ’عدالتی حکم‘ معطل کردیا

جسٹس منصور شاہ نے مشاہدہ کیا کہ کسی شخص کو بغیر کسی قابل اعتراض/ نقصان دہ مواد کی بنیاد پر گرفتاری اور حراست میں رکھنا اس کے حق عزت کو مجروح کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کا تقاضا ہے کہ اگر کسی شخص کے خلاف کارروائی شروع کی جائے اور معاملہ انکوائری یا تفتیش کے لیے بھیجا جائے تو چیئرمین نیب ’رائے‘ تشکیل دیں۔

اس میں کہا گیا کہ ’اگر عدالت مطمئن نہیں ہے کہ ملزم کے مجرم ہونے پر یقین کرنے کے معقول شواہد ہیں تو عدالت کو بنیادی حقوق کے نفاذ میں ضمانت دینا ہوگی‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر مقدمے کی سماعت کے بعد ملزم بری ہو جاتا ہے تو ضمانت سے انکار کی وجہ سے ملزم کے ساتھ اس کے خاندان یا قریبی افراد پر معاشی، سماجی اور نفسیاتی اثرات سمیت جیل میں گزارے گئے قیمتی وقت کے ضیاع کا کوئی معاوضہ نہیں ہے۔

اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے درخواست گزار کی ضمانت منظور کرلی اور فی کس 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں