خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2021
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا'۔ - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا'۔ - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے پشاور کی رہائشی خواتین کے بچوں کا نانا کی جائیداد میں حق کا دعویٰ مسترد کر دیا اور ریمارکس دیئے کہ خواتین زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعوٰی نہیں کرسکتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے بچوں کی جانب سے نانا کی جائیداد میں حق کے دعوے سے متعلق اپیل پر سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا'۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں خواتین کے جائیداد کے حقوق ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور

عدالت کا کہنا تھا کہ 'خواتین زندگی میں اپنے حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی'۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 'قانون وراثت میں خواتین کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دیکھنا ہوگا کہ خواتین خود اپنے حق سے دستبردار ہوں یا دعویٰ نہ کریں تو کیا ہوگا'۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پشاور کی رہائشی خواتین کے بچوں کی درخواست مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کا خواتین کے وراثتی حق کو محفوظ بنانے پر زور

واضح رہے کہ عیسیٰ خان نامی شخص نے 1935 میں اپنی جائیداد بیٹے عبدالرحمٰن کو منتقل کی تھی تاہم انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا تھا۔

عیسیٰ خان کی دونوں صاحبزادیوں نے اپنی زندگی میں وراثت نامے کو چیلنج نہیں کیا مگر ان کے بچوں نے 2004 میں نانا کی وراثت میں حق کا دعوٰی دائر کیا تھا۔

ان کی درخواست پر سول کورٹ نے بچوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا تاہم بعد ازاں ہائیکورٹ نے سول کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اور اب سپریم کورٹ نے بھی پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

واضح رہے کہ جولائی کے آخر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نفاذ ملکیتی حقوقِ نسواں (ترمیمی) بل 2021 پر دستخط کیے تھے جس کے بعد یہ بل قانون بن گیا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ نفاذ ملکیتی حقوقِ نسواں ایکٹ 2020 کے سیکشن 5 میں ترمیم کی گئی ہے۔

ترمیم کے تحت محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کو 30 دن کے اندر اپیل کی جا سکے گی۔

بل میں کہا گیا کہ 'یہ شکایت کے مؤثر اور تیز کے ازالے کا طریقہ فراہم کرتا ہے جس کے تحت اگر کسی خاتون کو ان کے ملکیتی حقوق یا جائیداد کا قبضہ نہ دیا جارہا ہو اور اس متعلقہ جائیداد کے حوالے سے عدالت میں کوئی کیس زیر التوا نہ ہو تو وہ محتسب کو درخواست دے سکتی ہیں'۔

درخواست کے ابتدائی جائزے کے بعد محتسب، متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں رپورٹ طلب کرے گا اور ریکارڈ کے جائزے کے بعد فیصلہ سنائے گا۔

بل میں کہا گیا کہ 'محتسب، شکایت گزار اور ان کے مخالفین سے بھی اعتراضات طلب کرے گا اور 60 روز میں سماعت مکمل کرنے کا مجاز ہوگا'۔

نفاذ ملکیتی حقوقِ نسواں (ترمیمی) بل 2021 درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے کیونکہ اس میں خواتین کے جائیدادوں سے متعلق تنازعات کے حل کے لیے وقت کی پابندی لگادی گئی ہے۔

یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 23 میں تمام شہریوں کے ملکیتی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن خواتین کو اپنا یہ حق حاصل کرنے کے لیے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں