پاکستان کو 'چینی قرضوں' کے مسائل کا سامنا نہیں ہے، اسد عمر

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2021
اسد عمر نے کہا کہ سی پیک سے متعلق معلومات ایک سے زائد مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں—تصویر: ڈان نیوز
اسد عمر نے کہا کہ سی پیک سے متعلق معلومات ایک سے زائد مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں—تصویر: ڈان نیوز

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے امریکی ادارے کی رپورٹ میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق کی جانے والی تنقید پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی فنانسنگ سے پاکستان کو ’چینی قرضوں‘ کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو قرضوں کے استحکام کا مسئلہ ہے لیکن اس کی وجہ چین نہیں بلکہ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ہمیں قرضوں کے استحکام کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے یہ بات ایک امریکی بین الاقوامی ڈیولپمنٹ ریسرچ لیب ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے جواب میں کہی جس میں سی پیک پر تنقید کی گئی تھی۔

اسد عمر نے رپورٹ میں کیے گئے اعتراض دہراتے ہوئے کہا کہ اس میں سی پیک کے حوالے سے شفافیت کے فقدان، پاکستان کے لیے خفیہ قرضوں، مہنگے قرضوں، سی پیک کی وجہ سے پاکستان کا قرض خطرناک حد تک بڑھ جانے کے مسائل اٹھائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں سے متعلق معلومات شفاف نہیں ہیں جبکہ یہ معلومات ایک سے زائد مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے منصوبہ بندی سی پیک کے علاوہ ایک مشترکہ کمیٹی سی پیک سے متعلق سوالات پوچھتی ہیں، یعنی اس پر پارلیمانی نگرانی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر کام کی سست رفتار سے چینی کمپنیاں پریشان

اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس میں جن منصوبوں پر زیادہ بات چیت کی جاتی ہے وہ توانائی کے منصوبے ہیں کہ ٹیرف کیا ہے، لاگت کتنی آئی، کمرشل فنانسنگ اسٹرکچر کیا ہے وہ سب معلومات نیپرا کے پاس ویب سائٹ پر موجود ہیں جہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کا حصہ ہیں، یہ پروگرام جب شروع ہوا تھا سی پیک کی معلومات کے بارے میں بہت بات ہوتی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم سے یہ معلومات مانگی تو ہم نے انہیں فراہم کردی، جس کے بعد آپ نے آئی ایم ایف کے مذاکرات میں سی پیک کے قرضوں کے حوالے سے کچھ نہیں سنا ہوگا۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سی پیک کے حوالے سے خفیہ قرضوں کی بات کی گئی، جو پتا نہیں کونسے قرضوں کی بات ہے ہم نے ذہن دوڑانے کی کوشش کی تو ہماری سمجھ میں یہ آیا کہ شاید کسی قرض یا منصوبے کے لیے جو سوورین گارنٹیز دی جاتی ہیں اسے خفیہ قرض کہہ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:سی پیک کے تحت بجلی کے 5 منصوبے تاخیر کا شکار

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنی آئی پی پیز لگی، چاہے وہ کسی بھی ملک کے سرمایہ کاروں نے لگائی ہیں، سب کو یہ اسٹرکچر ملتا ہے، اسی بنیاد پر یہ منصوبے لگائے جاتے ہیں اوورین گارنٹیز دی جاتی ہیں اس میں کوئی نئی چیز ایجاد نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ کوئی خفیہ چیز ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ یہ صرف توانائی کے منصوبوں کی پریکٹس نہیں بلکہ دیگر بھی جو منصوبے ہیں جس میں حکومت یہ سمجھتے ہیں کہ بجائے اپنا پیسہ پہلے ڈالنے کہ نجی سیکٹر سے کام کروانے کے لیے اس کے پیچھے سوورین گارنٹی ہوتی ہے، اس سے حکومت اپنا پیسہ استعمال کیے بغیر منصوبے میں سرمایہ کاری کروانے میں کامیاب ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں سی پیک کے لیے کوئی ایسی خاص گارنٹیز نہیں دی گئیں جو دیگر توانائی کے منصوبوں کو نہ دی گئی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:سی پیک پر کام سست نہیں ہوا، اسد عمر کی یقین دہانی

وفاقی وزیر نے کہا کہ تیسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ سی پیک کے قرضے بہت مہنگے ہیں اس میں 2 چیزیں ہیں ایک جو نجی شعبے کے توانائی منصوبے ہیں جن کے لیے قرضے لیے گئے، دوسری طرح کے وہ ہیں جو حکومت نے لیے جس سے انفرا اسٹرکچر کے باقی منصوبے تعمیر کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جن توانائی منصوبوں کے لیے چین کے بجائے دیگر قرض دہندہ اداروں مثلاً عالمی بینک، آئی ایف سی، اے ڈی بی، ڈی ای جی وغیرہ نے جو قرض دیا ان کے مقابلے میں چینی فنانسنگ کم شرح سود پر ہے البتہ بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ چین نے متعدد قرضے گرانٹ کی صورت میں بھی دیے، مجموعی طور پر حکومت سے حکومت کو ملنے والے قرض کو دیکھا جائے تو اس کی اوسط 2 فیصد سے بھی کم 1.98 فیصد بنتی ہے۔

'پاکستان پر چینی قرض مجموعی کا صرف 10 فیصد ہے'

اسد عمر نے کہا کہ ایک اعتراض یہ کہا گیا کہ چینی قرضوں کی وجہ سے پاکستان میں قرضے خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں لیکن پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرض اگر ملا کر دیکھا جائے تو اس میں 10 فیصد قرض چین کا جبکہ باقی مقامی یا بیرونی قرضے ہیں۔

مزید پڑھیں: سی پیک کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا، وزیراعظم

انہوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اگر صرف بیرونی قرض کو دیکھا جائے تو اس میں 26 فیصد قرض چین کا ہے تو جو 74 فیصد ہم نے دیگر عالمی اداروں سے لیا اس سے پاکستان کو خطرہ نہیں ہوگا لیکن اس 26 فیصد سے ہوگیا، یہ بالکل لغو دلیل ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ سی پیک کے توانائی منصوبوں کی اچھی شرائط تھیں یا بری تھی وہ ساری دنیا کے لیے تھیں، سب کو پیشکش کی گئی تھی لیکن ان شرائط پر منصوبے لگانے صرف چینی سرمایہ کار آئے یا انہوں نے پاکستان کے نجی سیکٹر کے ساتھ مل کر وہ منصوبے لگائے تو یہ خاص چین کے لیے پالیسی نہیں بنائی گئی تھی۔

انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ جو باہر سے سنتے ہیں ان پر سوال ضرور پوچھے جائیں لیکن اسی بیانیے کو بلا سوچے سمجھے اور تصدیق کیے آگے بڑھانا نہ اچھی صحافت ہے اور نہ ہی پاکستان کی خدمت ہے۔

سی پیک منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی 'حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ دکھا دیا ہے کہ موجودہ انتظامیہ کے تحت پہلے کے مقابلے میں زیادہ کام کیا گیا ہے جبکہ چینی حلقوں کی جانب سے بھی کوئی تنقید نہیں کی گئی'۔

'سی پیک کا پہلا مرحلہ روزگار کیلئے نہیں تھا'

سی پیک منصوبوں سے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع کی کمی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے وضاحت کی کہ پہلے مرحلے کے انفرا اسٹرکچر اور سرمائے پر مبنی منصوبوں کا مقصد روزگار پیدا کرنا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ جن نوکریوں کی توقع ہے وہ صنعتی کاری، صنعتی سرمایہ کاری، مینوفیکچرنگ اور زرعی منصوبے جیسے نئے منصوبوں سے پیدا ہوں گی۔

اسد عمر نے کہا کہ پاکستان اور چین دونوں سی پیک میں دوسرے ممالک کی شرکت کا خیرمقدم کریں گے، اسے علاقائی راہداری بنانا ایک بہت اچھا خیال ہوگا اور پاکستان اس کی مکمل حمایت کرے گا۔

وفاقی وزیر نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ مالی تعلقات قائم رکھے اور اس کے ترقیاتی عمل کا حصہ بنے۔

تبصرے (0) بند ہیں