صحافت کے خواب کا تعاقب کرتے ہوئے ہمیں شروع میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اخبار کے عوامی اشتہارات بعنوان 'ایک روزنامے کو ضرورت ہے' کے ذریعے تعلیم و تجربے کی قید سے یکسر آزاد سبھی کو بھرتی کرنے کے خواہاں اداروں کے پردے میں کوئی نہ کوئی 'دو نمبری' پنہاں ہوتی ہے، چنانچہ ہم نے زرد صحافت کے علمبردار 'اخبارات' کے چُنگل سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے سابق ہمسائے اور ممتاز مزاح نگار اور ادیب ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی (مرحوم) کے صاحبزادے بھائی شمیم قریشی کی مدد لی۔

وہ ہفت روزہ 'اخبارِ جہاں' میں رہ چکے تھے، اور انہوں نے ہمارا شوق دیکھ کر ایک قریبی محلے میں رہائش پذیر عارف بختیار کے پاس بھیجا، جو اس وقت 'ریاست' اخبار میں ہوتے تھے۔ پھر انہی کے توسط سے ہم ایک دو دن 'ریاست' کی نائٹ ڈیسک پر بھی جاکر بیٹھے تھے۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے گھر کی پچھلی گلیوں میں رہائش پذیر اردو کے معروف نقاد اور استاد ڈاکٹر یونس حسنی کا در بھی کھٹکھٹایا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ ہم 'بلیک میلنگ سے پاک' اخبار کی 'سند' لینے کے لیے ان کے پاس چلے جاتے کہ فلاں اخبار، فلاں جگہ پر ہے، ذرا معلوم تو کرا دیجیے کہ ہمارا وہاں جانا ٹھیک رہے گا یا نہیں، اور پھر وہ اپنے جاننے والوں سے پوچھ تاچھ کرکے ہماری تشفی فرماتے۔

اس دوران 'بی اے' کے دوسرے سال میں ہم بطور 'کمپیوٹر کمپوزر' ایک معروف اشاعتی ادارے 'جاسوسی ڈائجسٹ' پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے، اور یہ بھی ایک اخباری اشتہار کے توسط سے ہی ممکن ہوا۔ اس ادارے میں مختلف اخبارات کے لوگ بھی ساتھ کام کرتے تھے، جن سے ہم گاہے گاہے اپنی اخبار نویسی کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے۔ یہیں کے لوگوں سے کہہ سن کر ہم روزنامہ 'الشرق' اور دیگر اخبارات کے دفاتر بھی گئے، لیکن کسی اخبار میں ہماری نوکری کا کوئی سلسلہ بن کے نہ دیا۔

پڑھیے: جب ہمیں پتا چلا کہ اُس اخبار میں کوئی تنخواہ نہیں ملتی!

یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ ہماری 'شرافت' یا 'نزاکت' کا کچھ ایسا زمانہ تھا کہ ہم اپنے گھر سے باہر کا کچھ بھی کھانے پینے کے بالکل بھی روادار نہ ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی 'ممی ڈیڈی' طرح کے ہوتے تھے، لیکن بس ہمیں ایک کراہیت سی آتی تھی کہ نہ جانے کیسے گندے سَندے برتن اور ہاتھ ہوں گے، اس لیے بس ہم صرف اپنے گھر کی ہی بنی ہوئی چیزیں کھاتے پیتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ کسی اور کے گھر کی کوئی چیز کھانے میں بھی ہمیں اکثر یہی تامل رہتا تھا۔

خیر، 'جاسوسی ڈائجسٹ' کا ایک ڈیڑھ برس اسی عجیب عادت تلے گزارا، اور ہم اپنے دفتر میں عجیب 'نمونے' سے بنے رہے، کہ نہ کچھ کھانا نہ پینا، بس اپنے گھر کا پانی اور بسکٹ وغیرہ۔ دوسری طرف دنیا میں آگے چلنے کے لیے ان 'کراہیتوں' سے ابھی بہت آگے بڑھنا تھا، لیکن اس وقت دل یہ سب کچھ ماننے کو بالکل بھی تیار نہ ہوتا تھا۔

یہ تصور ہی محال تھا کہ کبھی کسی ہوٹل پر یا باہر کچھ بھی کھائیں پئیں، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی چلی گئی کہ چائے کے ہوٹل پر گندی پیالیوں اور برتنوں کا پورا 'گند پنا' دیکھ لینے کے باوجود آنکھیں میِچ کر سب کام چلا لیتے تھے اور پھر زیادہ سوچتے ہی نہ تھے کہ جو ہم کھا پی رہے ہیں، اس میں کیا کیا ’گند گھل چکا ہے‘، کیونکہ زندگی میں بعض اوقات صحیح غلط سے زیادہ 'وقت کے تقاضے' ماننے پڑجاتے ہیں، سو پھر ہم نے بھی کافی حد تک مان ہی لیے!

دوسری طرف ہمارے لکھنے لکھانے کی کوششیں کلاس نہم سے ہی شروع ہوچکی تھیں۔ ہم 'ہمدرد نونہال' میں کوئی قول، کوئی اقتباس یا لطائف وغیرہ بھیج کر اپنے نام چھپوانے کے شوق کی تسکین کرلیتے تھے، پھر مئی 2006ء میں باضابطہ طور پر ہماری پہلی تحریر 'ہمدرد نونہال' کی زینت بنی۔ لیکن باقاعدہ پہلی اخباری تحریر کی کوئی صورت مارچ 2007ء میں بنی، جب 'بی اے' سال اوّل میں ایک تعلیمی مسئلے پر اپنی الجھن کو روزنامہ 'ایکسپریس' میں پہلے باقاعدہ 'مراسلے' کی شکل حاصل ہوئی، پھر چل سو چل۔ اِکّا دُکا مراسلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسری طرف 'ہمدرد نونہال' میں 2007ء اور 2008ء کے 'خاص نمبر' میں ہمارے مضامین شائع ہوئے، جس پر ہمیں 200 روپے کا معاوضہ بھی ملا۔ اس کا مدیر نونہال مسعود احمد برکاتی صاحب (مرحوم) کا دستخط شدہ اطلاعی خط آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔

پڑھیے: جب اخبارات کا 'ضمیمہ' بھی آتا تھا

یہ 'جاسوسی ڈائجسٹ' میں ہماری ملازمت کا زمانہ تھا۔ یہاں ہمارے 'کمپوزر' کی ملازمت پر بھی غیر یقینی کے گہرے سائے تھے۔ اِدھر 'جاسوسی ڈائجسٹ' کے اس وقت کے مدیر شکیل عدنان کو جب ہمارے لکھنے پڑھنے کے رجحان کی خبر ہوئی تو انہوں نے ہمیں امید دلائی کہ 'تم شام کو چھٹی کے بعد 6 بجے سے ایک گھنٹے ہمارے پاس 'پروف ریڈنگ' کرلیا کرو۔ کچھ راستہ بن جائے گا۔' تو جناب یوں باقاعدہ کمپیوٹر کے کمپوز شدہ مواد اور مسوّدے کو سامنے رکھ کر 'پروف ریڈنگ' کرنی شروع کی۔ پورے ایک ماہ بغیر کسی پائی پیسے کے یہ سلسلہ رہا، کیونکہ ہمیں یہاں آسرا دیا گیا تھا، لیکن پوچھ پوچھ کر ہم خود ہی تھک گئے کہ ہمارے لیے اوپر کچھ بات ہوئی یا نہیں، اور یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکا۔

دوسری طرف 20 ستمبر 2008ء کو 'ایکسپریس' ہی میں ہمارا پہلا مضمون بھی شائع ہوگیا۔ 'قومی زبان کی فریاد' نامی یہ مضمون ہم نے لکھا تو بچوں کے صفحے 'کرنیں' کے لیے تھا، لیکن حمیرا اطہر صاحبہ نے اسے 'تعلیم و صحت' کے صفحے کے لیے موزوں خیال کیا، یہ ہماری تحریر کی دنیا میں کسی انقلاب سے کم نہ تھا، اور اس واقعے سے کچھ دن پہلے ہماری رہائش کے نزدیک حالات حاضرہ کے ایک ماہ نامے 'پاکستان پوسٹ' میں 'پروف ریڈنگ' کم 'کمپوزر' کی جگہ مل گئی۔

مگر چند ماہ کا یہ تجربہ نہایت ناخوشگوار ثابت ہوا، کیونکہ اس کے مالک و مدیر اور ناشر جو صاحب تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ چونکہ ہم کمپیوٹر کی جان کاری بھی رکھتے ہیں تو اسی تنخواہ میں ہم نہ صرف دیگر تکنیکی کام بھی کرکے دیں بلکہ اسکوٹر پر رسالے کی 'شیٹیں' بھی فریئر روڈ پر واقع 'چھاپے خانے' لے جانے سمیت کبھی شاہراہ فیصل پر واقع اسکول سے ان کے بچوں کو بھی واپس لے کر آئیں۔

پڑھیے: ہم صحافی بھی رو دیتے ہیں!

یہ ہماری عملی صحافت کی سمت آنے کی ایک خوفناک شروعات ثابت ہوئی۔ یہاں ہمارے صحافت سیکھنے کی خواہش کا جی بھر کر استحصال کیا گیا۔ ہم نے اس ناانصافی کی مقدور بھر مزاحمت کی اور آخرکار ایک دن اپنا استعفیٰ ان کے ہاتھ میں تھما دیا، جس پر انہوں نے نہ صرف یہ طعنہ دیا کہ 'اگر اتنے ہی حساس بنتے ہو تو کبھی صحافت کی طرف رخ بھی نہ کرنا' بلکہ انہوں نے ہماری آدھے ماہ کی تنخواہ بھی حیلے بہانوں سے دبا لی! ان کا ہمیں صحافت کے لیے ناموافق کہنا ہمارے لیے ایک بہت تکلیفدہ تھا، جس نے ہمارا حوصلہ بہت پست کیے رکھا۔

اگلے ماہ جامعہ اردو میں ہماری ایم اے 'ابلاغ عامہ' کی کلاسیں شروع ہوگئیں، یہ 2 سال ہم کوئی روزگار حاصل نہ کرسکے، سوائے ابتدائی کچھ ماہ ایک اسکول میں تدریس کے۔ اس کے بعد کچھ ماہ 'نوائے وقت' میں انٹرن شپ کا مرحلہ رہا تھا۔ کھڈا مارکیٹ (ڈیفنس) میں واقع 'نوائے وقت' کے دفتر میں بغیر کسی محنتانے کے ہم نے 'میگزین' اور پھر رات کی شفٹ میں مرکزی ڈیسک پر کام کیا۔ اس دوران 'ایکسپریس' کے لیے مضامین کا سلسلہ 'بامعاوضہ' ہوچلا تھا۔ 300 روپے فی مضمون بہرحال ہمارے لیے تو بہت اہمیت رکھتے تھے۔ پھر ہمارے 'ایم اے' کے امتحانات بھی ختم ہوگئے، بس اگر ختم نہیں ہوئی تھی تو وہ ہماری بے روزگاری تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں