پہلے یہ سن لیجیے، ہمارے عنوان کا تعلق کارکن صحافیوں کی بے روزگاری سے نہیں، بلکہ ہمارا موضوع پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہے۔

صحافت کا تعلق حالاتِ حاضرہ سے ہے، جس میں سیاسی گرما گرمی اور زندگی کے سارے کھیل تماشے ہوتے ہیں، اس میں رنج کے ایسے مقام بھی آتے ہیں کہ جہاں آپ کو خبر سے جُوجھنا بھی ہوتا ہے اور اپنی دلی کیفیات کو یکسر ایک طرف بھی رکھنا ہوتا ہے۔

یہ بڑی مجبوری کا وقت ہوتا ہے، ہمارے دل میں ایک ٹیس اٹھتی ہے، پلکیں ڈبڈباتی ہیں، کبھی زار و قطار رو پڑتے ہیں، مگر ’ڈیڈ لائن‘ کی سر پر لٹکتی تلوار اتنی چھوٹ بھی نہیں دیتی کہ ذرا ہلکے ہولیں۔ قارئین و ناظرین کو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ سب اخبار کے صفحے یا ٹی وی پر دکھائی تو دیتا ہی نہیں۔

پھر کسی بھی خبر کی ’قامت‘ کا تعین مختلف پیمانوں پر کیا جاتا ہے، پہلی بار اس کا اندازہ ہمیں ’نوائے وقت‘ کی مرکزی ڈیسک پر ’ٹرینی‘ کے طور پر بیٹھ کر ہوا۔ اُن دنوں ’ائیر بلو‘ کا طیارہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوا تھا، شاید دوسرے دن ایک خبر میں اس کے مسافروں کا ذکر تھا کہ کون کیا خواب دیکھتا تھا اور کسے کیا کرنا تھا۔ ہماری دانست میں یہ بہت بڑی خبر تھی، مگر ہمیں حکم ہوا کہ بس ’ایک کالمی‘ بنا دو!

تب ہمیں خبری تازگی اور اخبار کی جگہ جیسے بے رحم عنصر کا درست اندازہ ہوا۔ جیسے اسکول کے زمانے میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی، جو 4 جانیں لینے والی ایک چھوٹی سی خبر کے تناظر میں لکھی گئی تھی، وہ دراصل ایک چھوٹی سی خبر کے پیچھے 4 نوحے اور المیے تھے!

ہمیں بھی کبھی ایک خبری تصویر، ایک منظر یا ایک جملہ کلیجہ تھامنے پر مجبور کردیتا ہے اور کام ہمارا ’خبر‘ کا، جس میں ہمارے جذبات کی کوئی گنجائش ہی نہیں، البتہ پھر ہم خبر سے جُڑی ہوئی دیگر تحریروں میں اپنے ان احساسات کا ابلاغ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ دھیان رہے کہ ہمیں قارئین کی طرح اخبار کا صفحہ تہہ کرکے ایک طرف رکھنے، ریموٹ اٹھا کر چینل بدلنے یا انگلی کی جنبش سے کمپیوٹر یا موبائل کی اسکرین بدلنے کی سہولت نہیں ہوتی!

ہم ہی تو وہ زبان اور وہ آنکھ ہوتے ہیں، جو آپ کو یہ سب بتاتے اور دکھاتے ہیں، ایسے میں ہم خبری ڈیسک پر ہی اپنے آنسو چھپا لیتے ہیں، ضبط کی توہین ہوجائے تو جلدی سے اشک پونچھ لیتے ہیں۔ کاغذ تر بھی ہو تو چھپنے کے بعد وہ بالکل ’مشینی‘ ہوتا ہے، یہ تھوڑی بتاتا ہے کہ صحافی کے اشک بھی اس کی روشنائی میں جذب ہیں۔

کمپیوٹر تو ٹھہرا ہی سپاٹ، اس کا ’کی بورڈ‘ یہ کیسے بتائے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے انگلیوں کی ’پُوریں‘ کتنی بار آنسووں سے تر ہوئیں! البتہ مائیک اور کیمرے کے معاملے میں ہم چغلی کھا جاتے ہیں اور کیوں نہ کھائیں، ہم کوئی کلاکار تو نہیں اور نہ کوئی فرضی داستان عکس بند ہو رہی ہے کہ مشق کیجیے اور سدھار لیجیے۔ یہ تو حقائق کا بیان ہے اور اکثر ہمیں ’براہِ راست‘ سنانا اور دکھانا پڑتا ہے۔

آپ نے ٹی وی پر وسعت اللہ خان کو دیکھا ہوگا، جب وہ ایک فٹ پاتھ اسکول پر پڑھنے والے بے گھر معصوم بچے سے گفتگو کے دوران اس کے دل دوز جوابات نہ سہہ پائے تو کیمرے سے نگاہیں بچا کر آگے بڑھ گئے۔ اس وسیم بادامی کو بھی سنا ہوگا، جو کراچی میں ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بننے والی ننھی امل کی والدہ کی ڈائری پڑھ رہے تھے اور ان کی آواز میں آنسوؤں کی چاپ صاف سنی جاسکتی تھی!

لیکن اس کے باوجود ہم نے ابھی تک صحافیوں کے لابالی سوالات پر لعن طعن ہی سنی ہے کہ وہ حدود میں نہیں رہتے، چھاپے مارتے ہیں، ہر ایک کے منہ میں مائیک گھسیڑ گھسیڑ کر پوچھتے ہیں کہ ’آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟‘ مگر حساس اور ایماندار صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کس کرب سے گزرنا پڑتا ہے، اس جانب کم ہی توجہ کی جاتی ہے۔

ہم صحافیوں کو ایک کرب جائے وقوعہ پر جھیلنا پڑتا ہے اور دوسرا کرب ڈیسک پر بیٹھے سب ایڈیٹروں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ مجھے دونوں طرف کی لاچاری کا خوب اندازہ ہے، پھر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہمیں بہت سے اَن کہی اور اَن سنی چیزوں کا ابلاغ ہوجاتا ہے، یہ دُہری مشکل ہے!

لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہم کن مراحل سے گزر کر خبر یا فیچر قلم بند کرتے ہیں، کبھی ہمارا مخاطب ہمارے ہی کسی سوال پر اس قدر نڈھال ہوتا ہے کہ ہمیں قلم اور کیمرے سے رخصت لے کر کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھ کر آنسو پونچھنا پڑتے ہیں، اسے دلاسہ دینا اور گلے سے بھی لگانا پڑتا ہے تاکہ اُسے یہ احساس ہو کہ ہم بھی دردِ دل رکھتے ہیں اور صرف روزی روٹی کی مجبوری سے تمہارے پاس نہیں آئے۔

مجھے یاد ہے جب 2014ء کے آرمی پبلک اسکول، پشاور میں جان سے گزرنے والے بچوں کی خبروں نے بہت دنوں تک میری آنکھیں خشک نہ ہونے دی تھیں، پھر 2017ء میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے کے بعد خون میں ایک بچے کی دودھ کی شیشی کی تصویر نے بہت گھائل کیا، میں اس تصویر میں موجود کرب کو تحریر میں دینے میں ناکام رہا!

ہم جب مختلف فیچر اور انٹرویوز کے لیے شہر کے طول و ارض میں نکلتے ہیں، تو کئی بار صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ ہمارے سوالات گنگ ہوجاتے ہیں۔ ہماری برداشت ساتھ چھوڑ دیتی ہے، آنکھیں عَلم احتجاج بلند کردیتی ہیں اور ہم متوقع جوابات کی سہار نہ ہونے کے سبب چپ ہوجاتے ہیں۔

بس بتانا یہ تھا کہ اس سماج میں غموں کی بہتات ہے، جنہیں زبان دیتے ہوئے ہم صحافی بھی خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور رو دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

رابعہ جمیل Dec 08, 2018 12:14pm
خود بھی اسی پیشے سے منسلک ہوں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،مزید کیا کہوں کہ واقعی کبھی کبھی آنسووں کو چھپا کر مشین بن جانا ہی کام کی ڈیمانڈ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔