کراچی: خون کے عطیہ کے وقت ایک ہزار 282 افراد میں ایچ آئی وی کا انکشاف

09 اکتوبر 2021
6 ہزار 142 خون کا عطیہ دہندگان سیفلیس سے متاثر پائے گئے جو جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔  - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار
6 ہزار 142 خون کا عطیہ دہندگان سیفلیس سے متاثر پائے گئے جو جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔ - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار

کراچی: سرکاری طور پر جاری کیے گئے صوبائی اعداد و شمار میں خون سے پیدا ہونے والی اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی تعداد کو انتہائی کم قرار دیتے ہوئے ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں خون کی جانچ کی خدمات کو بہتر بنائے اور انہیں انتہائی رعایتی بنیادوں پر فراہم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی (ایس بی ٹی اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بات کر رہے تھے جس میں بتایا گیا کہ 24 ہزار 88 افراد ایک یا ایک سے زائد متعدی بیماریوں میں مبتلا پائے گئے اور ان کے نمونے 2021 کے پہلے 8 ماہ کے دوران 24 اضلاع میں قائم بلڈ بینکوں میں خون کا عطیہ دینے والوں کے ٹیسٹ بعد سامنے آیا جس کے بعد ان کے عطیات نا اہل قرار دے دیے گئے تھے۔

صوبے میں کُل 4 لاکھ 55 ہزار 742 نمونوں کا ٹیسٹ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ایچ آئی وی سے مکمل نجات پانے والا دوسرا مریض

اعداد و شمار کے مطابق ایچ آئی وی انفیکشن کا پتہ ایک ہزار 357 افراد میں لگایا گیا جبکہ 8 ہزار 155 مطلوبہ عطیہ دہندگان میں ہیپاٹائٹس بی کی تصدیق ہوئی اور 7 ہزار 995 لوگ ہیپاٹائٹس سی سے متاثر پائے گئے۔

اس کے علاوہ 6 ہزار 142 عطیہ دہندگان سیفلیس سے متاثر پائے گئے جو جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن ہے۔

مجموعی طور پر 448 خون کے عطیہ دہندگان ملیریا سے متاثر پائے گئے۔

اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 653 مریضوں کے ساتھ ضلع شرقی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی فہرست میں سرفہرست ہے جس کے بعد ضلع جنوبی (431)، ضلع ملیر (78)، ضلع کورنگی (77)، ضلع وسطی (23) اور ضلع مغربی (20)۔

خون کے عطیہ دہندگان میں سب سے زیادہ سیفلس کیسز (ایک ہزار 625) ضلع جنوبی میں پائے گئے جس کے بعد ضلع شرقی (926)، ضلع وسطی (522)، ضلع کورنگی (206)، ضلع ملیر (112) اور ضلع غربی (83) ہیں۔

'مجموعی طور پر کم اعداد و شمار'

سینئر پیتھالوجسٹ اور انفیکشن کنٹرول سوسائٹی آف پاکستان کے صدر پروفیسر رفیق خانانی نے کہا کہ 'اس اعداد و شمار کو بہت کم سمجھا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر بلڈ بینک اور صحت کی سہولیات نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹ (این اے ٹی) کی سہولت سے محروم ہیں جس میں 99 فیصد درستگی سامنے آتی ہے، ایس بی ٹی اے نے اسکریننگ نہیں کی بلکہ یہ اعداد و شمار بلڈ بینکوں سے اکٹھے کیے ہیں'۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ عام طور پر بلڈ اسکریننگ کی سہولیات یا تو ان ڈائریکٹ کومبس ٹیسٹ استعمال کر رہی تھیں جن میں 5 فیصد غلطی کا امکان ہوتا ہے یا ایلیسا ٹیسٹ استعمال کررہی ہیں جس میں 2 فیصد غلط رپورٹ کا امکان ہوتا ہے۔

تاہم این اے ٹی میں 0.5 فیصد غلبی کا امکان ہے لیکن یہ طریقہ کار تھوڑا مہنگا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ادویات کے بغیر ایک خاتون ایچ آئی وی ایڈز سے صحتیاب ہونے میں کامیاب

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ اعداد و شمار ابھی تک حیران کن ہیں کیونکہ سامنے آنے والے کیسز میں ایسے لوگ شامل ہیں جنہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ متاثر ہیں اور اسکریننگ کا انتخاب صرف اس لیے کیا کیونکہ وہ اپنا خون عطیہ کرنا چاہتے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ نہیں جانتے کہ انہیں ہیپاٹائٹس بی، سی یا ایچ آئی وی جیسے سنگین انفیکشن ہیں کیونکہ ان میں ابھی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں یا بیماری کی ہلکی پھلکی علامات ہیں، وہ اپنے پیاروں، خاص طور پر بیوی یا پارٹنرز میں یہ بیماری پھیلارہے ہیں جن کا ٹیسٹ بھی کروایا جانا چاہیے'۔

پروفیسر کے مطابق حکومت کو رضاکارانہ طور پر خون کے عطیہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور لوگوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ان بڑی متعدی بیماریوں کے لیے اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں