وزیراعظم عمران خان کا رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2021
حکومت کے تحت عشرہ رحمت للعالمین کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا --فوٹو: ڈان نیوز
حکومت کے تحت عشرہ رحمت للعالمین کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا --فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے ربیع الاول میں عشرہ رحمت للعالمین کی تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ملک اور پوری دنیا کو اسلام اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت سے آگاہ کرنے کے لیے رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں ایک منعقدہ تقریب میں وفاقی حکومت کے تحت عشرہ رحمت للعالمین کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جہاں وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے فاتحہ خوانی کروائی۔

خیال رہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج صبح انتقال کرگئے تھے اور ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی تھی جہاں سول اور فوجی حکام کے ساتھ ساتھ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، بعد ازاں ایف 8 قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عشرہ رحمت للعالمین کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کہا کہ آج نبی کریم ﷺ کا یوم ولادت منانے کے لیے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں اور میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے بات کرنا چاہتا ہوں اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان سے مختلف انداز میں بات کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی زندگی سے شروع کروں گا کیونکہ جہاں میں آج ہوں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، بڑا سوچا کہ اس پر بات کروں یا نہ کروں، پھر مجھے بشریٰ بی بی نے کہا کہ ضرور بات کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میری والدہ نے ایک دعا سکھائی تھی کہ سونے سے پہلے دعا کرو کہ اللہ مجھے سیدھے راستے پر لگا تو ہم بہن بھائی بھی بچپن میں یہی دعا کرتے تھے لیکن میری تعلیم ایچیسن میں ہوئی جہاں ہمارے رول ماڈل کوئی اور تھے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

انہوں نے کہا کہ فلمی اداکار، پوپ اسٹار، کھلاڑی اور گلیمرس والے لوگ تھے اور ان کی زندگیاں بالکل مختلف تھیں جبکہ ہمیں سیکھا گیا تھا کہ دعا مانگیں کہ سیدھے راستے پر چلا۔

ان کا کہنا تھا کہ سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ آج ہمارے نوجوانوں کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پہلی دفعہ انگلینڈ گیا تو 18 سال کا تھا وہاں جو ماحول دیکھا وہ زمان پارک سے بالکل مختلف ماحول تھا اور اس وقت جو رول ماڈل تھے ہم نے ان کی پیروی کی اور وہ مختلف تھے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک پورے دن کے کاموں کا جائزہ نہ لیتا تھا جو میں سمجھتا ہوں ایک صفت ہے، دن میں کیا کھویا کیا پایا، ہمیشہ اپنا تجزیہ کرتا تھا تو جو رول ماڈل تھے اور ان کو قریب سے دیکھا تو مجھے آہستہ آہستہ سمجھ میں آنا شروع ہوا، جو ہم نماز میں کہتے ہیں کہ اللہ ان کے راستے پر چلا جن کو آپ نے نعمتیں بخشی ہیں، یہ وہ نہیں ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب 625 اور 636 اور 637 کے درمیان آیا تھا، اور اگر یورپ میں یہ ہوتا کتنی کتابیں لکھی جاتیں اور فلمیں بنی ہوتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اپنی زندگی میں اتنی دیر بعد پتا چلا تو یہاں بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ کیا ہوا تھا، وہ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا واقعہ تھا، جس کو آپ سمجھ نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ 625 میں جنگ بدر میں 313 لوگ ہوتے ہیں، 636 اور 637 میں دو سپر پاورز نے 11 اور 12 سال میں گھٹنے ٹیک دیے، یہ کیا ہوا تھا، اس پر کوئی تحقیق ہوئی، کسی نے ہمیں بتایا گیا، ہمارے بچوں کو پتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ اس کے پیچھے جائیں گے تو ایک چیز پتا چلے گی کہ نبی ﷺ وہ شخصیت تھے جو یہ انقلاب لے کر آئے تھے، ایک تو ان کی شخصیت تھی دوسرا مدینے کی ریاست تھی جو ان کی سنت تھی، تو تب مجھے پتا چلا کہ اللہ کیوں کہتے ہیں کہ ان کی زندگی سے سیکھو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ ہمیں اس لیے حکم کر رہے ہیں کہ اگر اپنے ملک کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑا کروگے تو آپ کا ملک اٹھ جائے گا، آپ اگر ان کے کردار کو اپنانے کی کوشش کروگے تو آپ اوپر جائیں گے۔

تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم ربیع الاول مناتے ہیں، پٹاخے اور آتش بازی کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں لیکن کیا ان کی زندگی پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں کرتے، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم قرآن مجید کو گھر میں رکھا ہوا اور سارے اس کو بڑے ادب سے اٹھا رہے ہیں پڑھ نہیں رہے ہیں کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے کردار سے تو سیکھیں، کیا ان کے کردار پر چل رہے ہیں یا نہیں، اللہ کا حکم ہے کہ ان کی سنت پر عمل کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی ساری محنت انسانوں کے لیے تھی، دنیا کی بڑی جمہوریتیں ہیں وہاں کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ خلیفہ وقت حضرت علی ایک یہودی شہری سے عدالت میں کیس ہار جاتے ہیں، حضرت علی کا مقام دیکھیں کتنا بڑا تھا لیکن جج کہتا ہے میں آپ کی بیٹی کی گواہی قبول نہیں کرتا، یہ انسانیت کا نظام تھا اور سب انسان برابر تھے، ایک یہودی کو بھی ملک کے سربراہ سے وہی انصاف مل رہا تھا۔

سیرت نبوی ﷺ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انسانوں کو اکٹھا کرنے کا تصور تھا، قیادت کا پیمانہ دیا کہ ایک قائد انسانوں کو اکٹھا کرتا ہے، نفرتیں پھیلا کر تقسیم نہیں کرتا، یہ نہیں کہتا ہے کہ ہندو سب سے عظیم قوم ہے باقی سب نیچے ہیں، انصاف سارے انسانوں کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پیغام وہ لے کر آئے تھے وہ سب سے بڑا تھا کہ انسان اکٹھے ہیں اور وہ رحمت اللعالمین ہے، پھر ان کو دیکھتے دیکھتے لوگ لیڈر بن گئے، اگر آپ 623 کے بعد مطالعہ کریں تو اتنے مختصر وقت میں اتنے بڑے لیڈر پیدا نہیں ہوئے، جو ان کو دیکھتا تھا، وہ لیڈر بن گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ حضرت بلال ایک غلام تھے لیکن انہوں نے دو مرتبہ عسکری مہم قیادت کی تھی تو سب ان کو دیکھ کر عظیم لوگ بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف انسان کو آزاد کردیتا ہے، کمزور کو انصاف چاہیے، طاقت ور این آر او چاہتا ہے، کمزور کو طاقت ور سے تحفظ چاہیے اور جب آپ انصاف دیتے ہیں تو ایک معاشرے کو آزاد کردیتے ہیں، اس لیے دنیا میں جتنے بھی خوش حال ملک ہیں، ان میں قانون کی بالادستی ہے اور وہ اوپر چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کی وجہ سے مسلمان بڑھے، پھر جتنے بڑے سائنس دان تھے ان کو دیکھ لیں وہ سارے زندگی اور قرآن پر تجزیہ تھا اور پھر وہ سائنس دان بھی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی شخصیت کی تین خصوصیات پہلی صادق اور امین، پھر انسانوں کو خوف سے آزاد کرادیا، جو انسان کو غلام بنادیتا ہے، میں یہ چاہتا ہوں یہ سب ہمارے طلبا کو معلوم ہو، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ اگر ہم نے اپنے ملک کو اٹھانا ہے جب تک ان کی سنت پر نہیں چلیں گے یہ ملک نہیں اٹھ سکتا، یہ میرا ایمان ہے کیونکہ ہمارے اندر ایسے چیزیں آگئی ہیں جو ملک کو آگے جانے سے روک رہی ہیں۔

'پہلی حکومت ہے جس نے انتخابی نظام بدلنے کیلئے کام کیا'

انہوں نے کہا کہ 1970 کے بعد جو ہارتا ہے وہ کہتا ہے دھاندلی ہوگئی لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس نظام کو تبدیل کرتے ہیں، کیونکہ پہلے سارے دھاندلی کا شور کرتے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد کچھ نہیں کرتے، حکومت میں ہوتے ہیں تو دھاندلی کرنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ آپ کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جائزہ لیا تو جیسے ووٹنگ ختم ہوتی ہے اس کے بعد رزلٹ کے اعلان تک ساری دھاندلی ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے 2015 میں جوڈیشل کمیشن بنایا تھا، اس میں یہی بات سامنے آئی تھی، اس کو ختم کرنے کے لیے ای وی ایم مشین اور ٹیکنالوجی لے کر آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہی لوگ جو دھاندلی کا شور کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں ٹیکنالوجی نہیں لاؤ، میری پوری کوشش ہے الیکشن میں بھی نیوٹرل امپائر کی طرح کام کروں، یہاں ہم کیوں نہیں کرسکتے کیونکہ یہ لوگ دھاندلی کرتے ہیں وہ چاہتے نہیں ہیں کہ نظام تبدیل ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں گے تو یہ مقابلہ کریں گے کہ جو ملک کی اخلاقیات نیچے چلی گئی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو اقتدار میں آکر چوری کرتے ہیں تو سارے ملک کی اخلاقیات نیچے چلی جاتی ہے۔

'فحاشی پر بات کریں تو شور مچادیا جاتا ہے'

عمران خان نے کہا کہ دوسری بات ہے فحاشی کی، جب انسان فحاشی کی بات کرتا ہے تو یہاں ایک طبقہ ہے، جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے، وہ شور مچادیتا ہے کہ کتنا بڑا ظلم ہوگیا، پتا نہیں ہمیں پیچھے لے کر جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پردہ صرف عورت یا مرد کے کپڑوں کی بات نہیں ہے بلکہ ایک مجموعی تصور ہے کہ معاشرے میں خاندان کے نظام کو بچانے کے لیے کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے یہاں مغربی اثرات پڑ رہے ہیں تو یہاں بیٹھے لوگ مغربیت کو اپنا لیتے ہیں لیکن ان کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، ہمارے یہاں اسکالر شپس ہونی چاہیے تھی تاکہ جانتے کہ اس کے اثرات کیا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں 14 شادیوں میں ایک طلاق ہوتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے آج 70 فیصد شادیوں میں طلاق ہوتی ہے، میں نے خود دیکھا کہ طلاق پر بربادی بچوں پر آتی ہے کیونکہ بچوں کو ماں باپ چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ قصور میں ایک ڈی آئی جی کو جنسی جرائم کی تحقیق کے لیے بھیجا تو تکلیف دہ رپورٹ آئی لیکن اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا ہے، یہ چیزیں ہولی ووڈ سے آتی ہیں، ہولی ووڈ سے بولی ووڈ اور پھر یہاں یہ کلچر آرہا ہے، کسی نے سوچا ہے کہ ہولی ووڈ کی وجہ سے وہاں کے خاندان کے نظام کو کتنا نقصان ہوا، ایک شادی ایوریج ڈھائی سال چلتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو بتائیں گے نہیں کہ یہ دو طرز زندگی ہیں، آپ کا انتخاب ہے لیکن بتائیں تو سہی کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ کرپشن سے معاشرہ لڑتا ہے، قانون سے نہیں لڑتے اور جنسی جرائم سے بھی سارا معاشرہ مقابلہ کرتا ہے، سارے معاشرے کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس پر ہمارے اسکالر اور عالم پر بڑی ذمہ داری آگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے فون پر ایسا مواد موجود ہے جو دنیا میں کبھی نہیں تھا، اس لیے اس کا مقابلہ کرنا ہے، منشیات اسکول تک پہنچ گئی ہیں اس کے لیے کام کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کلچر مختلف ہے اور جو کارٹون میں کلچر آرہا ہے وہ بڑا مختلف ہے، اس لیے بچوں میں کنفیوژن ہو رہی ہے، ہمیں بچوں کو اپنی تہذیب سے آگاہ کرنا چاہیے، کیونکہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو روک نہیں سکتے اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ کے راستے کا بتاسکتے ہیں۔

رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو ایک رخ بدلنا پڑے گا، اسی پر اصول پر واپس جانا پڑے گا اور ہم یہاں رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ حضور ﷺ کی زندگی بچوں، بڑوں کو کیسے پڑھانی ہے اور کس طرح اپنی زندگیوں میں لانا ہے، اس بارے میں اسکالرز پڑھائیں گے۔

اتھارٹی کی تنظیم کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ اس کا پیٹرن میں خود بنوں گا، چیئرمین وہ ہوگا جس نے تفسیر لکھی ہے اور اس پر عبور ہو، اس کے لیے ہم نے تلاش شروع کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پر پوری دنیا میں ایڈوائزری بورڈ بنے گا، جس کے لیے ہم نے دنیا میں رابطے بھی کیے ہیں، اس کے نیچے رحمت اللعالمین بورڈ بنے گا، اتھارٹی پوری دنیا کو اسلام اور سیرت کو سمجھائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے اندر ایک اسکالر کا کام ہوگا کہ اسکولوں میں نصاب کا جائزہ لے گا اور ساتھ ہی دیگر ادیان کو پڑھائیں گے اور چاہیں گے کہ وہ بھی پوری طرح آگاہ ہوں، دوسرا یونیورسٹی میں تحقیق کروائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ایک اسکالر کا کام میڈیا کو دیکھنا ہوگا، سوشل میڈیا کو دیکھے گا کہ کیا تبدیلیاں آرہی ہیں، کیونکہ ہم میڈیا کو روک نہیں سکتے لیکن الٹرنیٹ دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پھر کارٹون پر کام کریں گے اور اپنے کارٹون بنائیں، پھر ایک اسپیشل پروجیکٹس کا ایک اسکالر ہوگا۔

وزیراعظم نے تمام وزرا کو ہدایت کی کہ پورے ہفتے پروگراموں میں شرکت کریں اور آگے بچوں سے پتا کریں گے کہ وہ سمجھیں ہیں کہ عظمت کا راستہ کیا تھا۔

3 ربیع الاول سے 13 ربیع الاول تک پروگرامات ہوں گے، نورالحق قادری

وزیراعظم سے قبل وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے تقریب کے آغاز میں کہا تھا کہ 3 ربیع الاول سے 13 ربیع الاول تک پروگرام ہوں گے اور یہ پروگرام اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کو پاکستان کے عوام روایتی احترام سے مناتی ہے لیکن حکومت پاکستان کا صرف رسمی سا تعلق رہا لیکن اس مرتبہ وزیراعظم عمران خان خود اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک مہینے میں متعدد بات بذات خود اپنے ملیٹری سیکریٹری اور اسٹاف کے ذریعے انتظامات اور تقریبات کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے رہے ہیں جو عالم اسلام اور اس ملک کے لیے بھی انتہائی نیک شگون ہے۔

سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی مسلمان ابدی سعادت اور نجات چاہتا ہے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ حضور ﷺ کی زندگی کو پڑھے اور اس کی پیروی کرے، نجات اور ابدی سعادت کے لیے سیرت نبوی کا مطالعہ اور سنت پر عمل نجات کا ذریعہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں