پینڈورا پیپرز میں نامزد افراد کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2021
درخواست ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عادل گیلانی کی جانب سے دائر کی گئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عادل گیلانی کی جانب سے دائر کی گئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اس بات کا تعین کرنے کہ کیا پینڈورا پیپرز اور پاناما پیپرز میں نامزد افراد نے آف شور کمپنیوں کو فنڈز کی منتقلی کے دوران کسی غلط کام کا ارتکاب کیا ہے، کے لیے انکوائری شروع کرنے کا حکم دیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں پاناما پیپرز اور پینڈورا پیپرز میں نامزد شہریوں کو یہ ہدایت دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی کہ ایف بی آر کو یقین دلاتے ہوئے اپنے آپ کو کلیئر کریں کہ آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری غیر قانونی ذرائع سے حاصل یا بھیجی نہیں گئی۔

درخواست میں عدالت سے ایف بی آر کو یہ حکم دینے کی استدعا کی گئی کہ ایسے افراد کو دستاویزی شواہد کے ساتھ وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:پینڈورا پیپرز میں کن کن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں؟

درخواست میں کہا گیا کہ جو پاکستانی شہری اس قسم کے لین دین کا جواز پیش نہیں کر سکتے ان کے غیر ملکی اثاثوں کو ایف بی آر کی جانب سے 3 ماہ میں منجمد کیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے کنوینشن اگینسٹ کرپشن (یو این سی اے سی) کی تجویز کے مطابق چوری شدہ اثاثوں کی بازیابی کے اقدام کے تحت ان اثاثوں کی وصولی کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے۔

مذکورہ درخواست ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل آف پاکستان (ٹی آئی پی) کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عادل گیلانی کی جانب سے دائر کی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ایف بی آر اس بات کی تصدیق کرے کہ سال 2018 میں ظاہر کردہ تمام غیر ملکی اثاثے، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ جیسے جرائم کے کمیشن سے حاصل نہیں کیے گئے۔

درخواست گزار نے یاد دلایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ٹیکس ایمنسٹی اسکیم برائے غیر ملکی اثاثوں (اعلامیہ اور وطن واپسی) ایکٹ 2018 کو مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز: اسے کسی حقیقی تبدیلی کی علامت کیوں نہیں سمجھنا چاہیے؟

عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اس طرح کا قانون ٹیکس دہندگان کو ان کی ایمانداری کی سزا دینے اور کرپٹ افراد کو موقع دینے کے لیے ہے کہ وہ اپنے کالے دھن کو سفید کر سکیں۔

ایکٹ نے واضح کیا کہ اس کی شق ان آمدنی یا اثاثوں پر لاگو نہیں ہوگی جو کسی جرم کے کمیشن میں شامل یا ان سے حاصل کیے گئے تھے۔

مذکورہ ایمنسٹی اسکیم سرکاری عہدیداران بشمول سرکاری انٹرپرائزز مثلاً پی آئی اے، ایس ایس جی سی ایل، پی کیو اے وغیرہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اراکین اور ان کے شریک حیات اور ان پر انحصار کرنے والوں پر بھی لاگو نہیں تھی۔

پٹیشن میں یاد دہانی کروائی گئی کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے دعوے کے مطابق ایف بی آر نے 10 اگست 2018 کو ان 444 پاکستانیوں میں سے کم از کم 294 کو نوٹس جاری کیے جن کا نام پاناما پیپرز میں تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں