لوگ میرا موازنہ میرے والد سے کرتے ہیں جو غیر منصفانہ ہے، علی عباس

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2021
علی عباس کے مطابق اقربا پروری ایک فرضی بات ہے—فوٹو: بی بی سی
علی عباس کے مطابق اقربا پروری ایک فرضی بات ہے—فوٹو: بی بی سی

پاکستانی ڈراموں کے اداکار علی عباس کا کہنا ہے کہ لوگ میرا موازنہ میرے والد و اداکار وسیم عباس سے کرتے ہیں جو غیر منصفانہ ہے۔

برطانوی نشر یاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی اردو سروس کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے کیریئر اور حال ہی میں مختلف نجی چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں سے متعلق بات چیت کی۔

خیال رہے کہ علی عباس پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کے نامور اداکار وسیم عباس کے صاحبزادے ہیں۔

علی عباس نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے کبھی نہیں پوچھا کہ آپ نے میرا وہ ڈراما دیکھا، گزشتہ 9 سالوں میں انہوں نے کوئی 4 سے 5 مرتبہ ہی مجھے کہا کہ تم نے اچھا کام کیا لیکن میں اپنے کام کے حوالے سے ان سے بہت کم ہی بات کرتا ہوں۔

مزید پڑھیں: اداکار علی عباس بھی کورونا وائرس سے متاثر

انہوں نے کہا کہ ’کبھی میں بہت مشکل میں آ جاؤں، کوئی کردار سمجھ نہ آئے تو ان سے معمول کی گفتگو میں پوچھ لیتا ہوں لیکن زیادہ تفصیلات میں نہیں جاتا کیونکہ اگر انہوں نے کچھ ایسا بتا دیا جو میں نہ کرسکا تو پھر بے عزتی ہو گی’۔

علی عباس نے کہا کہ لوگ اکثر میرا موازنہ میرے والد سے کرتے ہیں، جو غیر منصفانہ ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایک شخص کا تجربہ 40 سال کا ہے اور ایک ابھی آیا ہے اور آپ کہیں کہ یہ اپنے والد کی طرح کا نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ’آخر وہ کیسے اپنے والد کی طرح ہو سکتا ہے وہ تو ابھی آیا ہے، ابھی تو انڈے سے چوزا نکلا ہے ابھی اس نے مرغی یا مرغا بننا ہے، تو اسے وقت دیں’۔

بچوں کو شوبز انڈسٹری میں آنے کی اجازت دینے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میں بالکل چاہوں گا کہ اگر میرے بچے اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں تو ضرور آئیں کیونکہ میں اپنی فیلڈ کی بہت عزت کرتا ہوں اور ان لوگوں کی بالکل عزت نہیں کرتا جو اس کی عزت نہیں کرتے’۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ہمیشہ سے اداکاری کرنا چاہتا تھا لیکن پہلے اپنی پڑھائی مکمل کی کیونکہ ڈگری آپ کا دماغ کھولتی ہے’۔

علی عباس کا کہنا تھا کہ ’جب آپ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں پڑھتے ہیں تو آپ کو زندگی میں بہت مدد ملتی ہے اور بحیثیت اداکار بھی بہت مدد ملتی ہے’۔

اداکار نے مزید کہا کہ ’پڑھائی بہت ضروری ہے لیکن انگریزی بولنا اتنا ضروری نہیں، انگریزی تو دو سال امریکا میں رہ کر آنے والے میٹرک فیل بھی بول لیتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا دماغ کھل گیا ہے یا وہ پڑھے لکھے انسان بن گئے’۔

علی عباس نے یہ بھی کہا کہ ہمارے اداکاروں کے ساتھ بھی یہ المیہ ہے کہ جو انگریزی نہیں بولتا ہم اسے اعلیٰ رتبے کا نہیں مانتے لیکن شوبز انڈسٹری کو چاہیے کہ وہ انہیں قبول کرے۔

'مجھے لگتا ہے کہ اقربا پروری ایک فرضی بات ہے‘

شوبز انڈسٹری میں اقربا پروی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اقربا پروری ایک فرضی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حاجرہ یامین اور علی عباس 'وٹہ سٹہ' کے موضوع پر ڈرامے میں اداکاری کیلئے تیار

علی عباس نے کہا کہ اگر یہ فرضی بات نہ ہوتی تو ابھیشک بچن بولی وڈ کے سب سے بڑے اداکار ہوتے کیونکہ وہ بولی وڈ کے سب سے بڑے اسٹار کے بیٹے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ایک یا دو بار تو سہارا دے سکتا ہے لیکن تیسری مرتبہ دیکھنے والے اسے مسترد کر دیں گے۔

علی عباس کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اقربا پروری تلخ لوگوں کا لفظ ہے، جو اسے ایک عذر کے طور پر پیش کرتے ہیں’۔

’سوشل میڈیا کرپشن کا مرکز بن چکا ہے’

سوشل میڈیا سے متعلق علی عباس نے کہا کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کے خیال میں سوشل میڈیا ’کرپشن کا مرکز‘ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن سے میری مراد یہ ہے کہ مستحق اداکاروں کو اتنی اہمیت نہیں مل رہی جتنی ان اداکاروں کو مل رہی ہے جو پیسے کے ذریعے سب کچھ کروا رہے ہیں۔

علی عباس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بہت سے پیجز ایسے ہیں جہاں آپ کو پتا ہے کہ آپ نے 5 سے 6 ہزار میں ایک پوسٹ خریدنی ہے۔

مزید پڑھیں: بال عطیہ کرنے پر اداکار علی عباس کو بیٹی پر فخر

اداکار کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر سب کچھ کرنا اب بہت آسان ہے، گزشتہ 2 سے 3 برس میں سوشل میڈیا پر جوڑیاں بہت بِک رہی ہیں، اگر جوڑی بن جائے گی تو چار ڈرامے بھی ساتھ ہو جائیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ’5 سے 10 ہزار میں فالوورز خریدے جا سکتے ہیں لیکن مجھے ایسا کرنے سے خوشی نہیں ہوگی، میرے فالوروز کم ہیں لیکن وہ ہیں جو میرے کام کو دیکھ کر مجھے فالو کرتے ہیں’۔

علی عباس نے کہا کہ مجھے امریکی گلوگارہ لیڈی گاگا کی ایک بات بہت ٹھیک لگتی ہے اور وہ ہر جگہ اسے شیئر بھی کرتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا اب انٹرنیٹ کا ٹوائلٹ بن چکا ہے’۔

’لوگ صرف باتیں کرتے ہیں کہ مختلف مواد چاہیے’

اپنے کیریئر کے بارے میں علی عباس نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے تو ہر دن ہی ایک جدوجہد ہے’۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی پراجیکٹ ختم ہوتا ہے تو میں خوف محسوس کرتا ہوں کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ اگلا پراجیکٹ کیسا ہوگا؟ اس میں میرا کام کیسا ہو گا؟ کیا میں کردار کو اچھے طریقے سے نبھا سکوں گا؟

حال ہی میں نشر ہونے والے ڈرامے ’وفا بے مول‘ کی مقبولیت کے حوالے سے علی عباس نے کہا کہ ہم لوگ صرف باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں مختلف مواد چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ڈراما دیکھنے والوں کو مختلف کنٹینٹ نہیں چاہیے، بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر مجھے یہ کہتے بھی ہیں کہ آپ اتنے مختلف کردار کرتے آئے ہیں تو اب آپ ایسے روایتی کردار کیوں کر رہے ہیں؟‘

علی عباس نے مزید کہا کہ یہی بکتا ہے، زیادہ تر لوگ یہی دیکھتے ہیں، وفا بے مول کی کامیابی کے پیچھے بھی یہی فارمولا ہے۔

ڈراما انڈسٹری کے حوالے سے علی عباس نے کہا کہ یہ ایک ’مجبور انڈسٹری‘ ہے، یہاں پر سوائے 4 یا 5 ڈائریکٹر کے کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنی مرضی کی کاسٹ کا انتخاب کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ہمیں چینل نے کہا ہے، میں انہیں مجبور ڈائریکٹر کہتا ہوں کہ جب کیپٹن ہی مجبور ہو تو اداکار تو اس کے بعد آتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں