Dawnnews Television Logo

’عدالت میں بھی گندی نظریں میرا پیچھا کرتی ہیں‘

بیٹی بھی ہماری اغوا ہوئی اور سزا بھی ہم نے ہی کاٹی، پولیس کو جگہ جگہ رقم دینی پڑی کیونکہ ہماری بیٹی لاپتا تھی، والد متاثرہ لڑکی
اپ ڈیٹ 22 نومبر 2021 04:50pm

‘بعض پولیس والے اور عدالت میں موجود لوگ مجھے گندی نظروں سے دیکھتے ہیں، میں بہت چھوٹی تھی مجھے واقعے کی سمجھ نہیں تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا کررہے تھے، مجھے باندھ کر رکھا گیا اور وہ مارتے بھی تھے’۔

یہ الفاظ ایک 12 سے 13 سالہ لڑکی کے تھے، جسے 3 سال قبل کراچی میں قائم ایک کچی بستی سے اغوا کیا گیا اور سندھ کے دور دراز علاقے میں اس کا 2 ماہ سے زائد عرصے تک گینگ ریپ کیا گیا۔

گینگ ریپ متاثرہ لڑکی تک پہچنے اور اس کے اہل خانہ کو انٹرویو کے لیے راضی کرنے میں ریپ متاثرین کے لیے ملک میں کام کرنے والی این جی او 'وار اگینسٹ ریپ' نے مدد فراہم کی، این جی او سے وابستہ شیراز احمد اور متاثرہ لڑکی کی وکیل ایڈووکیٹ آسیہ منیر کی موجودگی میں یہ انٹرویو کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'ریپ کی روک تھام کیلئے نئے قوانین نہیں، قانون کا روح کے مطابق عمل درآمد ضروری'

جس وقت لڑکی کو اغوا کیا گیا تھا اس وقت اس کی عمر 8 سے 9 سال تھی اور اسے تقریباً 2 ماہ سے زائد عرصے تک اغواکاروں نے اپنے پاس رکھا اور اس سمیت دیگر بچوں کو باندھ کر رکھا جاتا تھا جبکہ بچی کے ساتھ اس عرصے میں متعدد مرتبہ گینگ ریپ بھی کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

غربت کے باوجود اہل خانہ کی مسلسل جاری رہنے والی کوششوں کے باعث 2 ماہ کے بعد لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں، اس دوران اسے کس قسم کی مشکلات پیش آئیں اس کا ذکر لڑکی کے والد نے کیا ہے۔

واضح رہے کہ لڑکی کی شناخت ان کی وکیل اور اہل خانہ کی مشاورت سے مخفی رکھی گئی ہے۔

’مجھے نشہ دیتے اور کام نہ کرنے پر تشدد کرتے تھے‘

آپ کو کس نے اغوا کیا تھا؟ گینگ ریپ متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ان کی عمر اس وقت 8 سے 9 سال تھی اور وہ بازار سے سودا لینے کے لیے گھر سے نکلی تھیں کہ ان کے پڑوسی نے کہا کہ ساتھ چلو چچی کے ہاں کپڑے دینے جانا ہے، جس پر انہوں نے ان سے کہا کہ میں نہیں جاسکتی میری والدہ کی طبیعت خراب ہے تو اس بات پر وہ زبردستی اپنے ساتھ لے گئے جہاں انہوں نے چائے پلائی جس کے بعد مجھے چکر آئے اور بعد ازاں مجھے نہیں معلوم کے وہ کہاں لے گئے۔

جب لڑکی سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو اندازہ ہوا کہ آپ کو کتنے عرصے تک وہاں رکھا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ مجھے اس حوالے سے کچھ بھی پتا نہیں ہے کیوں کہ مجھے نشہ دیا جاتا تھا اور میں ہر وقت نشے میں رہتی تھی۔

متاثرہ لڑکی نے گینگ ریپ کے حوالے سے کہا کہ وہ جو بھی کرتے تھے مجھے اس کی سمجھ نہیں تھی۔

پولیس بغیر رقم کے بغیر تفتیش کیلئے تھانے سے گھر تک آنے کو بھی تیار نہیں تھی، والد

متاثرہ لڑکی کے والد نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تو اس وقت اس کی عمر 10 سال تھی، ‘میں رکشہ چلاتا تھا جب مجھے اطلاع دی گئی کہ بیٹی گھر واپس نہیں آئی اور آدھے گھنٹے سے لاپتا ہے، میں گھر واپس آیا اور آکر 15 پولیس ہیلپ لائن پر کال کی لیکن وہاں سے کوئی مدد نہیں ملی، جس پر ہم تھانے چلے گئے اور وہاں ہم نے بیٹی کے لاپتا ہونے کی این سی کٹوائی’۔

متاثرہ لڑکی کے والد نے کہا کہ این سی کٹوانے کے باوجود پولیس جائے وقوع پر نہیں آئی جس پر ہم نے خود سے دوبارہ بیٹی کی تلاش شروع کی اور محلے والوں کو لے کر متعلقہ پڑوسی کے گھر گئے اور اس کے مالک مکان کو بلایا جس نے مکان کا تالا توڑا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ یہاں سے جا چکے ہیں اور ان کا سامان بھی مکان میں موجود نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم نے تھانے جا کر مقدمہ درج کروایا اور انہوں نے ساتھ ہی الزام لگایا کہ یہاں پولیس تو پیسے کے بغیر ہلتی نہیں اور پولیس اہلکاروں نے تفتیش اور جائے وقوع کا معائنہ کرنے کے لیے تھانے سے 4 کلومیٹر کی مسافت پر موجود ان کے گھر آنے کے لیے بھی پیسے طلب کیے تھے۔

’ہم نے تو رقم دینی ہی تھی کیونکہ ہماری بیٹی لاپتا تھی‘

گینگ ریپ متاثرہ لڑکی کے والد نے ماضی کے جھروکوں میں جاکر اور افسردہ انداز میں بتایا کہ ‘ہم نے تو رقم دینی ہی تھی کیونکہ ہماری بیٹی لاپتا تھی، اسی طرح 2 ماہ گزر گئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اس دوران رقم بھی خرچ ہوتی رہی، جس کی وجہ سے گاؤں میں موجود زمین بھی بیچ دی’۔

انہوں نے کہا کہ 2 ماہ بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ شکار پور پولیس نے بیٹی کو برآمد کرلیا ہے اور اس کارروائی میں ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا ہے، جس پر وہاں کی پولیس نے کراچی میں رابطہ کیا جس پر یہاں کی پولیس وہاں تک جانے کے لیے خرچہ مانگ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ہم نے کیس اے کلاس کردیا ہے اور اس کے لیے پہلے عدالت آئیں لیکن شکار پور کی پولیس کے دباؤ پر یا کسی اور صورت کے باعث کراچی سے پولیس وہاں پہنچی لیکن ہمیں اس کے باوجود بھی خرچ دینا پڑا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بیٹی کو کراچی لے کر آئے تو یہاں خاتون پولیس اہلکار نہیں تھی اور تمام مرد پولیس اہلکار ہی بیٹی سے بات کررہے تھے، اس کے بعد ہم بیٹی کو جناح لے گئے یہاں اس کا میڈیکل ہوا لیکن اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ آج تک ہمیں نہیں ملا، جس کے بعد کیس عدالت میں منتقل ہوا اور ایک سے دوسری کورٹ میں منتقل ہوتا رہا اور اس دوران ہمیں معلوم ہوا ہے ملزمان کو بری کردیا گیا ہے۔

’تفتیشی افسر نے ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے 25 ہزار روپے طلب کیے‘

اس موقع پر متاثرہ لڑکی کے والد نے کہا کہ ‘بیٹی بھی ہماری اغوا ہوئی اور سزا بھی ہم نے ہی کاٹی، یہ سزا آج تک کاٹ رہے ہیں کیوں کہ ہمارے بچے خوف کی وجہ سے اسکول نہیں جا رہے تعلیم حاصل نہیں کرپا رہے کیوں کہ جب تک ملزمان جیل میں تھے ہمیں یہ اُمید تھی کہ ان کو سزا ہوجائے گی’۔

یہاں انہوں نے ایک اور بات کی نشاندہی بھی کی کہ ملزمان عادی مجرم تھے اور ان پر پہلے سے بھی متعدد مقدمات درج تھے جو بچوں کے اغوا سے متعلق ہی تھی۔

اس پورے معاملے میں پولیس کے کردار کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘پولیس ہم سے رقم کا ہی مطالبہ کرتی رہی اور یہاں تک کہ اس وقت کے آئی او (تفتیشی افسر) نے بھی ہم سے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی مد میں 25 ہزار طلب کیے تھے’۔

کراچی میں گزشتہ 5 سال میں کتنے ریپ کیسز رپورٹ ہوئے؟

ریپ کیسز میں مجرمان کی سزاؤں کا تناسب جاننے کے لیے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کی جانب سے کراچی میں گزشتہ 5 سال میں ہونے والے ریپ یا گینگ ریپ یا جنسی زیادتی کے دیگر کیسز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے کراچی پولیس چیف کے دفتر سے رابطہ کیا گیا۔

ترجمان کراچی پولیس کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق گزشتہ 5 سال (2016 سے 2020 تک) کے اعداوشمار کچھ یوں ہیں:

  • 2016 میں ریپ کے 74 کیسز، گینگ ریپ کے 44 اور دیگر جنسی زیادتی کے 58 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 35 کیسز کم عمر لڑکیوں سے متعلق تھے جن میں 24 کیسز میں چالان جمع کروائے گئے 4 کیسز میں مجرمان کو سزا ہوئی 7 کیسز میں ملزمان بری ہوئے جبکہ 13 کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور 2 کیسز زیر تفتیش ہیں۔
  • اسی طرح مذکورہ سال کے دیگر 42 کیسز کم عمر لڑکوں سے جنسی زیادتی کے ہیں جن میں سے 36 میں چالان پیش کیے گئے، 14 کیسز میں مجرموں کو سزا ہوئی 8 میں بری کردیا گیا اور 13 کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
  • علاوہ ازیں 2016 میں کم عمر لڑکیوں کے ریپ کے بعد قتل کا ایک کیس رجسٹر ہوا جس میں چالان جمع کروادیا گیا ہے اور وہ ابھی زیر سماعت ہے جبکہ اس عرصے میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے انہیں قتل کرنے کے 4 کیسز رپورٹ کیے گئے جس میں سے ایک تاحال زیر تفتیش ہے، 2 کیسز کا چالان جمع کروادیا گیا ہے جس میں ایک کیس میں مجرم کو سزا ہوئی جبکہ ایک کیس زیر سماعت ہے۔
  • 2017 میں ریپ کے 59 کیسز، گینگ ریپ کے 47 اور دیگر جنسی زیادتی کے 51 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 33 کیسز کم عمر لڑکیوں سے متعلق تھے جس میں ایک کیس زیر تفتیش ہے، 27 میں چالان جمع کروائے گئے، 6 کیسز میں مجرموں کو سزا ہوئی، 5 میں بریت ہوئی اور 17 زیر سماعت ہیں جبکہ اسی عرصے میں 2 کیسز ایسے بھی رپورٹ ہوئے جن میں کم عمر لڑکیوں کو واقعے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس میں سے ایک زیر تفتیش ہے ایک میں چالان جمع کروایا جا چکا ہے اور وہ زیر سماعت ہے۔
  • اسی طرح 2017 میں کم عمر لڑکوں سے جنسی زیادتی کے 29 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 26 میں چالان جمع کروادیا گیا، 5 میں مجرمان کو سزا ہوئی، 10 میں بریت اور 11 زیر سماعت ہیں جبکہ 2017 میں کم عمر لڑکے کو واقعے کے بعد قتل کرنے کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جو ابھی زیر تفتیش ہے۔
  • 2018 میں ریپ کے 116، گینگ ریپ کے 54 اور دیگر جنسی زیادتی کے 117 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے کم عمر لڑکیوں سے متعلق کیسز کی تعداد 70 تھی جس میں ایک اب بھی زیر تفتیش ہے، 62 میں چالان جمع کروادیا گیا، 15 میں مجرمان کو سزا ہوئی، 12 میں بریت اور 39 زیر سماعت ہیں جبکہ اس سال ریپ کے بعد قتل کے 2 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں سے ایک زیر تفتیش ہے، ایک میں مجرم کو سزا ہوچکی ہے۔
  • اسی سال میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 62 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 5 زیر تفتیش ہیں، 52 میں چالان جمع کروایا گیا، 8 کیسز میں سزا ہوئی 18 میں بریت اور 25 زیر سماعت ہیں۔
  • 2019 میں ریپ کے 122 کیسز رپورٹ ہوئے، گینگ ریپ کے 54 کیسز اور غیر فطری جنسی زیادتی کے 126 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے کم عمر لڑکیوں سے متعلق 54 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 2 زیر تفتیش ہیں، 46 میں چالان جمع کروایا گیا 4 میں سزا ہوئی، 4 میں بریت ہوئی اور 40 زیر سماعت ہیں، اس سال ریپ کے بعد قتل کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جس میں چالان جمع کروایا جا چکا ہے اور وہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
  • اسی سال کم عمر لڑکوں سے جنسی زیادتی کے 73 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک زیر تفتیش ہے، 60 میں چالان جمع کروادیا گیا ہے، 8 میں مجرموں کو سزا اور 11 میں بریت ہوئی اور 41 زیر سماعت ہیں، اس سال واقعے کے بعد قتل کے 2 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک زیر تفتیش ہے جبکہ ایک کیس میں چالان جمع کروادیا گیا ہے اور وہ زیر سماعت ہے۔
  • 2020 میں ریپ کے 148 کیسز، گینگ ریپ کے 53 اور جنسی زیادتی کے 75 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے کم عمر لڑکیوں سے متعلق 50 کیسز تھے، ان میں سے ایک کیس زیر تفتیش ہے، 41 میں چالان جمع کروادیا گیا ہے کسی کو سزا نہیں ہوئی ایک میں بریت ہوئی ہے اور 40 زیر سماعت ہیں جبکہ اس سال واقعے کے بعد قتل کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جس میں چالان جمع کروایا جا چکا ہے اور وہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
  • امسال کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 77 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں سے 4 زیر تفتیش ہیں، 64 میں چالان جمع کروادیا گیا 6 میں مجرموں کو سزا ہوئی 2 میں بریت اور 56 زیر سماعت ہیں جبکہ اس سال واقعے کے بعد قتل کا ایک کیس رپورٹ ہوا جس میں مجرم کو سزا ہوچکی ہے۔
  • 2021 میں 15 ستمبر تک ریپ کے 137 کیسز، گینگ ریپ کے 56 اور دیگر جنسی زیادتی کے 75 کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں سے لڑکیوں سے متعلق کیسز کی تعداد 49 ہے، 8 زیر تفتیش ہیں، 35 میں چالان جمع کروایا جا چکا، 5 میں مجرموں کو سزا ہوچکی اور 37 زیر سماعت ہیں جبکہ اس سال واقعے کے بعد قتل کے 2 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں ایک میں چالان جمع کروایا گیا ہے اور وہ زیر سماعت ہے۔
  • اسی طرح اس عرصے میں کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 69 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 12 زیر تفتیش ہیں، 56 میں چالان جمع ہوچکا اور ان میں سے 53 زیر سماعت ہیں جبکہ اس عرصے میں واقعے کے بعد قتل کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

ریپ کیسز میں سزاؤں کا تناسب 2 فیصد رہ گیا ہے، ایڈووکیٹ آسیہ منیر

ایڈووکیٹ آسیہ منیر، جو گزشتہ کچھ سالوں سے وار اگینسٹ ریپ کے لیے ماہر قانون کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں اور ریپ یا گینگ ریپ متاثرین کے کیسز کی پیروی کرتی ہیں، کا کہنا تھا کہ قانون تو بہتری کے لیے ہی ہوتا ہے لیکن اس کا نفاذ اہم ہے یا تحقیقات جانب داری سے کی جائیں تو اس کا اثر کیسز میں کنوکشن (سزاؤں) پر پڑتا ہے اور ملزمان سزا سے بج جاتے ہیں یا اس کا اثر کیس کے فیصلوں پر پڑتا ہے۔

ریپ کیسز میں سزاؤں کے تناسب میں کمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ آسیہ منیر کا کہنا تھا کہ جو کہا جاتا ہے کہ ملک میں ریپ کیسز میں سزاؤں کا تناسب 2 فیصد رہ گیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے اور اگر معاشرے میں 98 فیصد اس طرح کے مجرم آزادی سے گھوم رہے ہوں گے تو ہمیں اندازہ کرنا چاہیے کہ ہم کتنے غیر محفوظ ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اصل خرابی کہاں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام میں خرابی ہے جو متعلقہ سطح کا ہے ہی نہیں، تفتیش کرنے والے با صلاحیت نہیں ہیں اور کسی کو بھی تفتیش سونپ دی جاتی ہے، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین میڈیکل افسران کی تعداد بہت کم ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے متاثرہ فرد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے سامنے آنے والے مسائل کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ اس کی فیس کے حوالے سے بہت زیادہ باتیں سامنے آتی ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کی فیس کی ادائیگی کا کوئی انتظام مقرر کرے کیوں کہ بیشتر کیسز میں متاثرہ خاندان غریب یا متوسط طبقے سے ہوتا ہے اور وہ اس کی ادائیگی نہیں کرسکتے یہاں تک کہ نظام میں خرابی کے باعث جس طرح انہیں تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں وہ ان کی نوکریوں یا کاروبار پر اثر انداز ہوتا ہے۔

’ریپ متاثرہ کیلئے مرد تفتیشی افسر یا جج کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘

ایڈووکیٹ آسیہ منیر نے کہا کہ جب میں نے ریپ متاثرہ لڑکیوں یا خواتین کے کیسز پر کام کا آغاز کیا تو ‘عدالتوں کے حالات بہت خراب تھے اور سب جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ اچھا یہ وہ لڑکی ہے جس کا ریپ ہوا ہے اور لوگ اپنے کیسز کو چھوڑ کر اس پر تجسس کا اظہار کرتے اور باتیں کرتے تھے یہاں تک کہ ایسے کیسز کے دوران عدالت بھر جاتی تھی اور اس دوران متاثرہ لڑکی اپنا بیان دینے سے کتراتی تھی’۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2019: بچوں کو سہیل ایاز جیسے درندوں سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کب ہوں گے؟

ایسے کیسز کی سماعت کے لیے خواتین ججز کی موجودگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں آسیہ منیر کا کہنا تھا کہ کچھ خواتین ججز ہیں اور ان کی موجودگی میں متاثرہ لڑکی کو بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے کیوں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو مرد ججز، پولیس افسر یا میڈیکل افسر کے سامنے بتانے میں متاثرہ لڑکیاں پریشان ہوجاتی ہیں۔

یہاں انہوں نے ایک اور بات کی نشاندہی کی کہ حال ہی میں کیسز کا عدالتوں میں ان کیمرا ٹرائل کا حکم ہوا ہے اس کے علاوہ وکلا بھی ججز سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے چیمبر میں متاثرہ لڑکی کو سن لیں کیوں کہ وہ سب کے سامنے بات نہیں کرپائے گی لیکن اس کے باوجود اب بھی بھری ہوئی عدالتوں میں ٹرائل کیا جاتا ہے اور صرف ایک پردہ لگا دیا جاتا ہے لیکن سب لوگ اس کیس کی روداد سن رہے ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ ان کے سامنے سے گزر کر بھی جاتی ہے اور سب کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔

ایڈووکیٹ آسیہ منیر کا مزید کہنا تھا کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی ایک کیس میڈیا کی وجہ سے ہائی لائٹ ہوجاتا ہے تو اس کی ہائپ ہوجاتی ہے جس کے بعد مختلف احکامات بھی صادر ہوتے ہیں اور زینب الرٹ جیسا بل بھی آجاتا ہے دیگر قوانین بھی نافذ کردیئے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد سب اسے بھول جاتے ہیں۔

ریپ متاثرہ فرد کو پیش آنے والے مسائل

اس حوالے سے اور سزاؤں کے کم تناسب کی وجوہات جاننے کے لیے ماہرین قانون /وکلا ، تفتیشی پولیس افسر، سماجی رضاکار، این جی اوز کے نمائندوں سے بات کی گئی تو ہوش رُبا قسم کے معاملات اور وجوہات سامنے آئیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

  • پہلا معاملہ جو سب سے زیادہ قابل تشویش ہے وہ یہ کہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایسے کسی واقعات کے بعد ریپ متاثرہ فرد کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے، جس کی وجہ سے اکثر شواہد ضائع ہوجاتے ہیں اور مجرم کو اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
  • اس کے بعد پولیس کے کردار پر سب سے زیادہ نقطہ چینی کی گئی، جس کی بڑی وجہ پولیس کی جانب سے ایسے کیسز میں متاثرہ فرد اور مجرم کے درمیان معاملہ سیٹل کرنے کے حوالے سے دباؤ شامل ہے جبکہ پولیس مرد افسر کی جانب سے متاثرین کو مزید ہراساں کرنا اور ایسے کیسز کو دیکھنے کے لیے خواتین پولیس افسران یا عملے کی کمی کا ذکر بھی کیا گیا۔
  • پولیس کی تفتیش میں موجود نقائص کے حوالے سے مزید باتیں سامنے آئیں کہ بیشتر تفتیش کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ریپ کیسز میں مجرم کے خلاف کون سے قوانین لاگو ہوتے ہیں، علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پولیس تفتیشی افسر اکثر انجانے میں شواہد کو نقصان پہنچاتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا یا ان کی ٹریننگ ہی نہیں کی جاتی کہ کس طرح شواہد کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
  • ریپ کیسز میں ماہرین قانون نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ایسے کیسز جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں بھی مرد عملے اور ججز کی وجہ سے متاثرہ خاتون کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور وہ واقعے کو بیان کرنے سے کتراتی ہیں جبکہ ایسا بھی ہوتا ہے کیسز میں مستقل پیشیوں کی وجہ سے اکثر متاثرین کیسز کو بند کرنے یا سماعتوں میں غیر حاضر ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس سے مجرمان کو فائدہ حاصل ہوجاتا ہے۔
  • یہ بھی بتایا گیا کہ بیشتر ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے اور خاندانی شرمندگی یا جرگے کے باعث ان پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جس سے مجرمان کو مزید شے مل جاتی ہے۔
  • وکلا، سماجی رضاکاروں اور دیگر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پولیس، عدلیہ اور ہسپتالوں میں ریپ کیسز کو دیکھنے کے لیے خواتین عملے اور افسران یا عہدیداران کی بہت زیادہ کمی ہے، اگر خواتین ان اداروں میں سامنے آئیں تو متاثرین کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔

'واقعے کے 6 گھنٹے کے اندر متاثرہ کا میڈیکل ہوجانا چاہیے'

مذکورہ معاملے پر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید سے جب سوال کیا گیا کہ اگر کسی خاتون یا بچے کے ساتھ ریپ ہوجاتا ہے تو واقعے کے کتنے وقت میں شواہد کو محفوظ کرلینا چاہیے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ویسے تو اس حوالے سے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی لیکن کوشش کی جاتی ہے کے متاثرہ فرد کا جلد از جلد معائنہ کیا جائے، اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ موجودہے کہ واقعے کے 6 گھنٹے کے اندر اندر متاثرہ فرد کا معائنہ کرلیا جائے جبکہ پولیس اور میڈیکو لیگل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جلد ازجلد معائنہ کرلیا جائے۔

انہوں نے زور دیا کہ جس قدر جلد ہوسکے متاثرہ فرد کا میڈیکل ہوجانا چاہیے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی کیس 6 گھنٹے کے بعد سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے شواہد نہیں مل سکتے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایسے واقعے کے بعد پولیس کو شواہد کو محفوظ کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایک تو متاثرہ فرد کے جسم پر موجود نمونوں کو حاصل کیا جاتا ہے جو میڈیکل افسر کا کام ہے لیکن دوسری بات یہ کہ کرائم سین سے پولیس کو بروقت شواہد کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے کیوں کہ وہاں ہم (میڈیکلو لیگل) نہیں جاسکتے، تو پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کرائم سین سے متعلقہ شواہد کو صحیح انداز میں اور بروقت جمع کرے اس کے علاوہ یہ بھی پولیس کا کام ہے کہ وہ واقعے کے فوری بعد جلد از جلد متاثرہ فرد کو میڈیکو لیگل کے پاس لے کر آئیں اور ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ متاثرہ فرد اپنے جسم پر موجود شواہد کو نہا کر یا کپڑے سے صاف کرکے ضائع نہ کردے۔

ایسے شواہد کو محفوظ کرنے کے لیے پولیس کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟ کے سوال پر خاتون میڈیکو لیگل کا کہنا تھا کہ جس قدر جلد ہوسکے شواہد اور نمونوں کو محفوظ کیا جاتا ہے اور ان کو خاص طریقہ کار کے تحت محفوظ کیا جانا چاہیے ورنہ ان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نمونوں کو نمی سے بچانا ہوتا ہے اور انہیں ڈرائے کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر درست انداز میں منتقل کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ شواہد کو محفوظ کیے جانے کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ وہ انہیں متعلقہ لیباٹریز تک پہنچائیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر نمونوں یا شواہد کو محفوظ کرنے میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی وجہ سے نمونے جلد خراب ہوجاتے ہیں جبکہ اگر شواہد کو صحیح انداز میں محفوظ کیا جائے تو وہ سالوں تک محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔

’پورے کراچی کیلئے صرف 9 خواتین میڈیکولیگل تعینات ہیں‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا خواتین میڈیکو لیگل کی واقعی کمی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ کمی ہے، انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات بتائیں کہ کراچی کی تقریباً دو کروڑ سے زائد کی آبادی کے لیے صرف 9 خواتین میڈیکو لیگل تعینات ہیں، انہوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں کے ریپ کے کیسز میں متاثرین کو میڈیکل کے لیے اسی وجہ سے انتظار کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ہمارے پاس خواتین میڈیکو لیگل کی کمی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نئے آنے والے میڈیکو لیگل یا پہلے سے تعینات سینئر میڈیکو لیگل کی بھی ٹریننگ ہونی چاہیے اور کچھ عرصے کے بعد ان کے بھی ٹریننگ کے باقاعدہ کورسز ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ پولیس تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر کی بھی ٹریننگ بہت ضروری ہے تاکہ وہ کیس کو صحیح انداز میں پیش کرسکیں۔

’اکثر کیسز میں ریپ کو زنا میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘

ریپ کیسز کے حوالے سے پولیس کو درپیش مسائل سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ضلع وسطی شہلا قریشی کا کہنا تھا کہ ریپ کیسز میں سب سے بڑا مسئلہ یا المیہ اس کو ثابت کرنا ہے کہ ریپ ہوا ہے یا نہیں ہوا اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ریپ کیسز کو زنا میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا لوگ اس طرح اسے بیان کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے چیزیں ثابت نہیں ہوپاتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات کے بعد ہی تصدیق ہوسکتی ہے کہ کیا ہوا تھا یہ ریپ تھا یا زنا اور ان دونوں میں ایک انتہائی باریک سی لائن ہے۔

ایس ایس پی شہلا قریشی نے مزید کہا کہ دوسری اہم بات جائے وقوع سے شواہد جمع کرنا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ بہت تاخیر سے رپورٹ کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے پولیس کو کرائم سین کو ری کنسٹرکٹ کرنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں، اس کی مزید تفصیلات میں جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں جائے وقوع سے ایسے شواہد جمع کیے جاسکتے ہیں جو کیس کو مضبوط کرسکتے ہیں، لیکن کرائم سین کو دھو دیا جاتا ہے یا اس میں کوئی رد بدل کردیا جاتا ہے یا پھر بستر کی چادر تبدیل کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ متعلقہ شواہد نہیں مل پاتے اور اس کی وجہ سے میڈیکل رپورٹ میں بھی چیزیں شامل نہیں ہوپاتیں۔

پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ اکثر واقعات کو کئی کئی ماہ کے بعد ٹی سی ایس کے ذریعے رپورٹ کیا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پر آکر ایک بیان جاری کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے شواہد حاصل کرنا ایک مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے کیوں کہ پتا چلاتا ہے کہ واقعہ 4 ماہ پرانا تھا اور اس اب رپورٹ کیا جارہا ہے۔

’اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے‘

ایس ایس پی شہلا قریشی نے مزید کہا کہ ایک اہم مسئلہ یہاں یہ موجود ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ 18 سال سے کم عمر بچی کے ساتھ یا کسی بچے کے ساتھ ہوجاتا ہے تو اسے رپورٹ کرنے کے لیے ہمارے معاشرے میں آگاہی کی کمی ہے، پہلے تو والدین اس بات کو دباتے ہیں کہ اس بات کو باہر نہیں کرنا کیوں کہ خاندان کی عزت کا مسئلہ ہے، لڑکی ہے تو رشتہ نہیں ہوگا یا اس کی بہن کی شادی نہیں ہوگی وغیرہ یا خاندان اسے معاشرتی مسئلہ یا کلنک کے طور پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے ملک میں جرگہ یا دیگر قبائلی روایات ذات برادری اور پنچائیت کے نظام کا بھی ذکر کیا کہ اس کی وجہ سے بھی بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اکثر یہ فیصلے سامنے آتے ہیں کہ جرگہ نے کسی ایک لڑکے یا شخص کی جانب سے کسی لڑکی سے تعلقات کی بنا پر سزا دینے کے لیے اس لڑکے کی بہن کے ساتھ ریپ کا فیصلہ سنا دیا، یہ کہاں کا انصاف ہے اور ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک بھائی یا والد کی سزا ایک بہن یا بیٹی کا ریپ کرکے دی جائے، اس میں اس کا کیا قصور ہے یہ انتہائی غیر انسانی سلوک ہے۔

خواتین پولیس افسران کی کمی کی تصدیق

محکمے میں خواتین افسران یا اہلکاروں کی کمی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایس ایس پی شہلا قریشی نے تصدیق کی کہ ایسا ہے، انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں ایک متاثرہ خاتون ایک خاتون کو ہی اپنے ساتھ بیتے ہوئے واقعے کی 'کمفرٹ زون' میں رہتے ہوئے تفصیلات بتا سکتی ہے، ایسے واقعات کی تفتیشی افسر خاتون کو ہی ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہمارا رائج طریقہ کار بھی یہ ہی ہے اور اخلاقی طور پر بھی ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن حقیقت میں ہمارے ہاں خواتین پولیس افسران و اہلکارون کی کمی ہے اور پاکستان بھر میں یہ تناسب 1.5 فیصد ہے جو انتہائی کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور ایسے کیسز کو دیکھنے کے لیے کم سے کم انسپکٹر کے عہدے تک کسی کو تفتیش دی جائے اور خاص طور پر جب متاثرہ خاتون کا 161 کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے تو وہ بھی کسی خاتون پولیس افسر کو کرنا چاہیے جو اے ایس آئی سے کم عہدے پر نہ ہو۔

’ہر چیز کا الزام پولیس پر نہیں ڈال دینا چاہیے‘

ریپ کیسز کو خراب کرنے یا مجرمان کی عدالتوں سے ضمانت یا ان کے چھوٹ جانے کے حوالے سے پولیس پر الزامات لگتے ہیں؟ کہ سوال کے جواب میں ایس ایس پی شہلا قریشی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں اور جو ٹریڈیشنل پولیسنگ کا طریقہ کار تھا اسے تبدیل کیا جا رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) کا مضمون بھی نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کوشش کی جاتی ہے خواتین سے متعلق کیسز یا ریپ و گینگ ریپ کیسز کی تفتیش ایک خاتون پولیس افسر کو دی جائے اور متاثرہ فرد کے تمام امور جو مقدمے کے اندراج سے لے کر عدالت میں متاثرہ فرد کے ساتھ جانے تک خاتون پولیس افسر ہی ان کے ساتھ ہو۔

ریپ اور گینگ ریپ واقعات میں مجرمان کی سزاؤں کا تناسب کم ہے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ 0.2 یا 2 فیصد نہیں ہے جیسا کہ رپورٹ کیا جارہا ہے انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی معلومات اور حاصل ڈیٹا کے مطابق گزشتہ 5 سال میں کراچی کی سطح پر یہ تناسب 7 سے 9 فیصد رہا ہے۔

ان مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟

ٹرینڈ خواتین پولیس افسران کی تعیناتی

ریپ متاثرہ فرد کو پیش آنے والی پریشانیوں کے حل سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے سینئر وکیل ایڈووکیٹ شعیب اشرف کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو تفتیش کے دوران ریپ متاثرہ فرد کی ذہنی کیفیت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اس کے لیے میری تجویز ہے کہ ضلعی سطح پر (کیوں کہ فوری طور پر تھانے کی سطح پر یہ ممکن نہیں ہے) خاتون افسر کی تعیناتی ضروری ہے، جو ریپ کے کیسز اور ان کے متاثرین اور ان کے کیسز میں معاونت کرے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی خواتین افسران کی ذہنی امراض کے ماہرین کے ذریعے ٹریننگ بھی دلوانی چاہیے تاکہ وہ ٹراما کا شکار ریپ متاثرہ خاتون اور بچوں و دیگر کی ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان سے متعلقہ طریقہ کار کے تحت رابطہ قائم رکھیں اور تفتیش میں مدد کرسکیں۔

ایڈووکیٹ شعیب اشرف کا کہنا تھا کہ ریپ کیسز میں ضروری ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر مقدمے کا اندراج ہوجائے لیکن کیوں کہ متاثرہ فرد ٹراما کا شکار ہوتا ہے اور وہ ذہنی طور پر واقعے اور اس کے بعد سامنے آنے والے رویوں سے متاثر ہو رہا ہوتا ہے اس لیے ایک ٹرینڈ خاتون پولیس افسر کی موجودگی اور ان کی بروقت مدد سے اس میں غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکتا جس کا فائدہ اکثر ملزمان کو پہنچتا ہے۔

بروقت میڈیکل اور مقدمے کے اندراج میں غیر ضروری تاخیر سے گریز

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرا اہم مسئلہ جو اس طرح کے کیسز میں سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے کیسز میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی جاتی ہے اور شواہد یا نمونوں کی بروقت فرانزک (ڈی این اے ٹیسٹ، میڈیکل نہ ہونا) نہیں کی جاتی جس کا فائدہ بھی ملزم کو پہنچتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ تینوں ہی چیزیں (مقدمے کا بروقت اندراج، بروقت میڈیکل اور بروقت ڈی این اے ٹیسٹ) ریپ کیسز میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اگر یہ سب بروقت نہ ہوا ہو تو کیس کمزور ہوجاتا ہے۔

یہاں انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ نہ صرف کیسز کا اندراج بروقت ہونا چاہیے بلکہ ایسی قانون سازی بھی کی جانی چاہیے کہ پولیس افسر کی غفلت کی صورت میں اسے قرار واقعی سزا بھی دی جانی چاہیے۔

سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ یہاں ریپ کیسز میں نہ صرف نمونوں کا بروقت حصول ہی ضروری نہیں بلکہ ان کو کس طرح محفوظ کیا جا رہا ہے یہ بھی ایک ضروری امر ہے جو مقدمے کی سماعت کے دوران ہونے والی جراح پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ اور موجودہ ججز کی ٹریننگ

ایڈووکیٹ شعیب اشرف نے مزید کہا کہ ان سب کے بعد اہم مرحلہ عدالت میں کیسز کی سماعت کا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ عدالتوں کے ججز ریپ کیسز کی سماعت کے لیے متعلقہ ٹریننگ سے محروم ہیں اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ ججز کی ٹریننگ ہونی چاہیے تاکہ وہ ریپ کیسز اور ان کے متاثرین کے تمام قسم کے معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنائیں۔

اس کے علاوہ شعیب اشرف نے معاشرے کے رویوں کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کو اس بات کی ٹریننگ بھی دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کو بتائیں کہ ان کے ساتھ کون کس طرح کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے تاکہ والدین اس پر نظر رکھ سکیں کیوں کہ ریپ کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ نہ صرف خواتین بلکہ بچوں کو بھی قریبی عزیزو اقارب کی جانب سے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔