سیمی فائنل کی ٹکٹ ’پکی‘ کرنے کا پاکستان کے پاس سنہری موقع

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2021
اگرچہ پاکستان کے لیے ماحول سازگار ہے مگر اس کے باوجود نمیبیا کو کمزور حریف سمجھ کر کھیلنا  قومی ٹیم کے لیے بڑی غلطی ثابت ہوسکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی
اگرچہ پاکستان کے لیے ماحول سازگار ہے مگر اس کے باوجود نمیبیا کو کمزور حریف سمجھ کر کھیلنا قومی ٹیم کے لیے بڑی غلطی ثابت ہوسکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کرکٹ ٹیم گروپ راؤنڈ کا اگلا میچ آج نمیبیا کے خلاف کھیل رہی ہے۔ ویسے تو سیمی فائنل تک قومی ٹیم کی رسائی کے امکانات روشن ہیں، لیکن اگر آج جیت مل گئی تو سیمی فائنل کی سیٹ کا کنفرم ٹکٹ بھی ہاتھ لگ جائے گا۔

اس ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی اور ابوظہبی میں پاکستان کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تو آج کا یہ میچ بہت حد تک یکطرفہ لگ رہا ہے۔

ابوظبی میں قومی ٹیم کو ٹی20 کرکٹ میں آخری بار 2012ء میں انگلینڈ کے خلاف شکست کا سامنا ہوا تھا، اور اگر آخری 5 ٹی20 میچوں کا جائزہ لیں تو ان میں قومی ٹیم ناقابلِ شکست رہی ہے۔

اس کے علاوہ علاوہ پاکستان کے برخلاف نمیبیا کی ٹیم اس وقت دباؤ کا شکار ہوگی کیونکہ افغانستان کے خلاف آخری میچ میں اسے 62 رنز سے شکست کا سامنا ہوا تھا۔ افغانستان کی جانب سے بنائے گئے 160 رنز کے جواب میں نمیبیا کی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 98 رنز ہی بناسکی تھی۔

لہٰذا ان ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج پاکستان 3 سے 4 کھلاڑیوں کو موقع دے سکتا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ کچھ لڑکوں کو آرام مل جائے گا اور دوسری وجہ یہ کہ بینچ میں بیٹھے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا جائزہ بھی ہوجائے گا۔

مثال کے طور پر وکٹ کیپر محمد رضوان کی جگہ تجربہ کار سرفراز احمد کو آزمایا جاسکتا ہے، جبکہ محمد حفیظ کو آرام کروا کر نوجوان حیدر علی کو موقع دیا جاسکتا۔

پھر حسن علی کی خراب کارکردگی کو دیکھتے ہوئے محمد وسیم جونیئر کو کھلایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شاہین شاہ آفریدی یا حارث رؤف میں سے کسی ایک کو بھی آرام کروایا جاسکتا ہے اور ان کی جگہ محمد نواز کو ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ پاکستان کے لیے ماحول سازگار ہے مگر اس کے باوجود نمیبیا کو کمزور حریف سمجھ کر کھیلنا اور اس میچ کو غیر اہم سمجھنا قومی ٹیم کے لیے بڑی غلطی ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ نمیبیا کے پاس ڈیوڈ ویزے کے علاوہ کوئی بڑا نام موجود نہیں ہے، جنہوں نے 135 کے اسٹرائیک ریٹ اور 47 کی اوسط کے ساتھ 142 رنز بنائے ہیں۔ مگر کرکٹ اور خاص کر ٹی20 کرکٹ میں بڑے ناموں سے زیادہ بڑی پرفارمنس جیت کے لیے اہم ہوتی ہیں، اس لیے بھرپور حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اترنے اور سیمی فائنل تک ناقابلِ شکست پہنچنے کی ضرورت ہے، تاکہ بھرپور اعتماد کے ساتھ ناک آؤٹ مرحلے میں حریف کا سامنا کیا جائے۔

یاد رہے کہ دونوں ٹیمیں محض ایک مرتبہ 2003ء کے ورلڈ کپ میں مدمقابل آئی تھیں جس میں پاکستان نے 171 رنز سے باآسانی مقابلہ جیت لیا تھا۔


فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

تبصرے (0) بند ہیں