اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کردی

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2021
عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 73 کے تحت مارگلہ کی زمین صرف وفاقی حکومت کی ہے—تصویر: فیس بک
عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 73 کے تحت مارگلہ کی زمین صرف وفاقی حکومت کی ہے—تصویر: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کرتے ہوئے فریقین کو جواب کے لیے نوٹس جاری کر دیے جبکہ اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مارگلہ کی پہاڑیوں میں غیر قانونی تعمیرات اور کاروباری سرگرمیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران درخوست گزار مونال گروپ کے وکیل سعد ہاشمی، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے وکیل حافظ عرفات، وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے وکیل دانیال حسن عدالت پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں نیوی، فضائیہ کی تجاوزات کے خلاف کارروائی کا حکم

عدالت نے استفسار کیا کہ نیشنل پارک کس کی پراپرٹی ہے اور کیا اس وقت وہاں کوئی تعمیرات ہو رہی ہیں؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ میں وہاں کرایہ دار ہوں اور دو دو جگہ کرایہ دیتا ہوں، اب مجھے وہاں سے نکلنے کا نوٹس آیا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے کس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا؟

جس پر وکیل نے بتایا کہ معاہدہ سی ڈی اے کے ساتھ ہوا ہے، عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 73 کے تحت مارگلہ کی زمین صرف وفاقی حکومت کی ہے، ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کی ساری زمین وفاقی حکومت مینیج کرتی ہے، جس کی پراپرٹی نہیں اس کے ساتھ آپ نے معاہدہ کیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ سی ڈی اے اور ملٹری لینڈ کے مابین تنازع میں مجھے بے دخل نہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: مارگلہ ہلز کی حدود سے باہر اسٹون کرشنگ کی اجازت دینے کی درخواست مسترد

سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے نے مارگلہ میں ریسٹورنٹ کے لیے مونال گروپ کو 15 سال کے لیے زمین لیز پر دی تھی، انہوں نے معاہدہ ختم ہونے سے پہلے ہی ملٹری لینڈ اتھارٹی سے معاہدہ کرلیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دوسرے فریق کے ساتھ معاہدہ کرنے سے قبل آپ نے سی ڈی اے سے اجازت لی تھی؟

عدالت نے سی ڈی اے وکیل سے کہا کہ آپ نے کس طرح اسلام آباد کے قوانین کی خلاف ورزی کی، نیشنل پارک کو اشرافیہ نے تباہ کیا، کیا اسلام آباد میں کوئی قانون موجود بھی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات ہوئیں تو چیئرمین سی ڈی اے اور وائلڈ لائف بورڈ ذمہ دار ہوں گے۔

نجی ہوٹل انتظامیہ نے کہا کہ مارگلہ ہلز پر سی ڈی اے سے معاہدہ کرکے ہوٹل بنایا گیا لیکن اب بے دخل کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مارگلہ کی پہاڑیوں پر کرشنگ کی اجازت نہیں دی جاسکتی، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ نجی کمپنی نے کس طرح سی ڈی اے کے ساتھ معاہدہ کر کے کرایہ فارمز ڈائریکٹوریٹ کو دیا؟ فارمز ڈائریکٹوریٹ کیسے سرکاری زمین پر قبضے کا دعوٰی کر سکتا ہے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بادی النظر میں فارمز ڈائریکٹوریٹ کا مارگلہ ہلز پر ملکیت کا دعوٰی خلاف آئین ہے۔

سی ڈی اے وکیل نے کہا کہ فارمز ڈائریکٹوریٹ نہ صرف ہوٹل بلکہ 8 ہزار 400 ایکڑ مارگلہ ہلز پر ملکیت کے دعویدار ہیں۔

عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرتے ہوئے فارمز ڈائریکٹوریٹ اور سی ڈی اے کو جواب کے لیے نوٹس جاری کردیا اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا کے تمام مقدمات 9 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں