صرف مردوں پر مشتمل بلوچستان کابینہ نے حلف اٹھالیا

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2021
زیادہ تر صوبائی وزرا سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی زیر قیادت کابینہ کا بھی حصہ تھے — فوٹو: اے پی پی
زیادہ تر صوبائی وزرا سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی زیر قیادت کابینہ کا بھی حصہ تھے — فوٹو: اے پی پی

کوئٹہ: بلوچستان کی صرف مردوں پر مشتمل کابینہ نے حلف اٹھا لیا جبکہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے 5 مشیروں اور 3 خواتین قانون سازوں کو پارلیمانی سیکریٹری مقرر کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر صوبائی وزرا سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی زیر قیادت کابینہ کا بھی حصہ تھے اور صرف تین نئے چہرے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے میر سکندر علی عمرانی، پاکستان نیشنل پارٹی کے سید احسان شاہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مبین خان خلجی کو اس مرتبہ شامل کیا گیا ہے۔

گورنر ہاؤس کے لان میں منعقدہ تقریب میں گورنر سید ظہور احمد آغا نے نئی کابینہ سے حلف لیا۔

تقریب میں حاصل بزنجو کے علاوہ وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، قبائلی عمائدین، اراکین صوبائی اسمبلی اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں کئی روز سے جاری تنازع کا اختتام، وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی

تاہم نئے تعینات ہونے والے پارلیمانی سیکریٹریوں میں سے کسی نے بھی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کو نئی کابینہ میں شامل نہ کرنے کے بعد ان کی عدم موجودگی نمایاں تھی۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے میڈیا کو بتایا کہ وزرا کے قلمدانوں کا فیصلہ ایک دو روز میں کر لیا جائے گا۔

14 رکنی کابینہ کے گیارہ ارکان پچھلی کابینہ کا بھی حصہ تھے جو 24 اکتوبر کو اس وقت تحلیل ہو گئی جب گورنر نے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جام کمال خان کا استعفیٰ قبول کیا تھا۔

اپنے عہدوں کا حلف اٹھانے والے وزرا میں عبدالرحمٰن کھیتران، سردار محمد صالح بھوتانی، میر ظہور احمد بلیدی، حاجی اکبر اسکانی، سکندر علی عمرانی، حاجی محمد خان لہری، نوابزادہ طارق مگسی، بی اے پی کے حاجی نور محمد دمڑ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے میر اسد اللہ بلوچ، سید احسان شاہ، پی ٹی آئی کے میر نصیب اللہ خان مری اور مبین خان خلجی، عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک خان پیرالیزئی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ شامل ہیں۔

سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق لالا عبدالرشید بلوچ، سردار مسعود علی لونی، بی اے پی کے ضیااللہ لانگو، جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ میر گہرام خان بگٹی اور پی ٹی آئی کے میر نعمت اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔

نعمت اللہ زہری کے علاوہ تمام نئے مشیر اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ ضیااللہ لانگو وزارت داخلہ کا قلمدان رکھ چکے ہیں۔

اس کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ کے خلاف مہم میں اہم کردار ادا کرنے والی بشریٰ رند، ماہ جبین شیران اور لیلیٰ ترین کو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کر دیا گیا تاہم وہ حلف برداری کی تقریب میں شریک نہیں ہوئیں کیونکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ کابینہ میں بطور وزیر شامل نہ ہونے پر ناخوش ہیں۔

وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نئے وزرا کو ایک دو روز میں قلمدان دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرگیا، 3 وزرا اور 2 مشیر مستعفی

اس تاثر کو ختم کرتے ہوئے کہ پختونوں کو نئی کابینہ میں مناسب نمائندگی نہیں دی گئی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’پختون اراکین صوبائی اسمبلی کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے‘۔

18ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کابینہ میں مزید ایم پی ایز کو جگہ نہیں دی جا سکتی‘۔

جے یو آئی (ف) کا کابینہ میں شمولیت سے انکار

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سابق وزیراعلیٰ کے خلاف بی اے پی کے قانون سازوں کی طرف سے شروع کی گئی تحریک کی حمایت کی تھی تاہم انہوں نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پوری کوشش کریں گے‘۔

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ینگ ڈاکٹرز کے سڑکوں پر آنے سے قبل مذاکرات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی اور حکومت، ڈاکٹروں کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ طبی پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اور حکومت کو توقع ہے کہ ڈاکٹرز، عوام کی خدمت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں