سنگ گیرک: وہ قدیم کھیل جو ہزارہ برادری کی شناخت ہے

05 جنوری 2022
تماشائی سنگ گیرک کے کھیل سے محظوظ ہوتے ہوئے۔
تماشائی سنگ گیرک کے کھیل سے محظوظ ہوتے ہوئے۔

ایک پتلی سی گزرگاہ کے دونوں اطراف طویل اسٹینڈ موجود ہیں۔ ان اسٹینڈز کے درمیان موجود گزرگاہ میں کھیل کی جگہ کی نشاندھی کے لیے چونے سے لکیریں لگائی ہیں۔ ایک جانب گڑھے میں کھلاڑی کھڑا ہے جبکہ دوسری جانب ایک چھوٹے سے ٹیلے پر ہدف موجود ہے۔

یہ سنگ گیرک نامی ایک کھیل کا منظر ہے۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے لوگ ہر شام یہ کھیل دیکھنے جمع ہوتے ہیں۔ آج ایک 60 سال سے زائد عمر کا شخص اپنے کانپتے ہاتھوں میں ایک گول پتھر لیے کھڑا ہے اور ہدف کو نشانہ بنانے کی تیاری کررہا ہے۔ 80 سے 90 فٹ کے فاصلے پر موجود ہدف دراصل پائپ کا 4 انچ کا ٹکڑا ہوتا ہے جسے اس ٹیلے میں گاڑ دیا جاتا ہے۔

یہ کھلاڑی زوار شاہ ہیں جو اپنے ہی نام پر قائم زوار شاہ سنگ گیرک کلب کے کپتان اور بہترین کھلاڑی ہیں۔ وہ اس وقت سنگ گیرک ٹورنامنٹ کا فائنل کھیل رہے ہیں اور انہیں اپنی جیت کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔

سنگ گیرک کا لفظ فارسی زبان سے آیا ہے جس کا لفظی مطلب ’پتھر تھامنا‘ ہے۔ اس کھیل میں ہدف کو ایک پتھر سے نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ سنگ گیرک کے ایک میچ میں دو ٹیمیں ہوتی ہیں۔ ان کے پاس اپنے اپنے پتھر ہوتے ہیں جنہیں وہ میچ کے مقام کے اطراف میں موجود پہاڑیوں سے ہی جمع کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سنگ گیرک غریب افراد کی ہی ایجاد ہے اور اسے وہی کھیلا کرتے تھے۔ ان میں اکثر بزرگ لوگ ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کھیل انہیں خوش بھی رکھتا تھا اور مشغول بھی۔

اگر اس کھیل کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا آغاز تقریباً ایک ہزار سال قبل وسط ایشیا سے ہوا تھا۔ وہاں سے ہجرت کرتی ہوئی ہزارہ برادری کے ساتھ یہ کھیل 18ویں صدی میں افغانستان سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچا۔ سنگ گیرک افغانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان اور منگولیا میں آج بھی کھیلا جاتا ہے۔

1953ء میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے زوار شاہ کی عمر اب 68 سال ہے۔ وہ کوئٹہ میں سنگ گیرک کھیلنے والے معمر ترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ اپنے کھیل اور اس میں بنائے گئے ریکارڈز کی وجہ سے انہیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلسل 5 راؤنڈز میں ہدف کو نشانہ بنانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کر رکھا ہے۔

زوار شاہ
زوار شاہ

زوار شاہ بتاتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بزرگوں کو سنگ گیرک کھیلتے ہوئے دیکھتے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود 22 سال کی عمر میں یہ کھیل کھیلنا شروع کیا۔ انہوں نے فخر سے بتایا کہ ’اب میں 68 سال کا ہوچکا ہوں اور میں نے سنگ گیرک روز کھیلا ہے۔ میں اپنے زوار شاہ سنگ گیرک کلب کا کپتان بھی ہوں‘۔ ظاہر ہے کہ اس کھیل میں ریٹائرمنٹ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے زوار شاہ نے پولیس کے محکمے میں ملازمت کی اور اب وہ وہاں سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔

65 سالہ عنایت بھی سنگ گیرک کے کھلاڑی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ کھیل کھیلنا شروع کیا تو تمام کھلاڑی آپس میں پیسے جمع کرتے تھے اور آخر میں وہ رقم سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو انعام کے طور پر دے دی جاتی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’اب انعام کی رقم تماشائیوں سے حاصل کی جاتی ہے، وہ جس کھلاڑی کی کارکردگی سے خوش ہوتے ہیں اسے 50 یا سو روپے دے دیتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری نوجوان نسل اب اس کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن وہ ہم بوڑھوں کو اپنا مذاق بناتے ہوئے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ نوجوان کراٹے، کنگ فو اور فٹبال کو ترجیح دیتے ہیں جوکہ اچھی بات ہے، کیونکہ ہم تو اب ان میں حصہ لے کر اپنی کمزور ہڈیوں کو تڑوا نہیں سکتے۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ روایتی کھیل ختم ہوجائے‘۔

عنایت ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے
عنایت ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے

فی الحال تو بزرگوں نے اس کھیل کو کسی حد تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ کوئٹہ میں سنگ گیرک کی تقریباً 20 ٹیمیں ہیں جو کہ روز کم از کم دو میچ ضرور کھیلتی ہیں۔

عنایت نے کہا کہ ’ہم اس کھیل کو پورے بلوچستان اور ملک بھر میں فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس کھیل کو صرف کوئٹہ کی ہزارہ برادری تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہم اس کھیل کو کراچی، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈیویژن تک لے جانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں‘۔

اسد اللہ ایک سینیئر کھلاڑی اور جنرل موسیٰ کلب کے کپتان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہم لوہے کو پائپ کو نشانہ بنانے کے لیے گول پتھر استعمال کرتے تھے لیکن اس کی وجہ سے پتھر آسانی سے ٹوٹ جاتے تھے۔ ان کے مطابق اس وجہ سے ’اب کلب نے فیصلہ کیا ہے کہ روایتی پتھروں کی جگہ اب لکڑی کے ٹکڑے استعمال کیے جائیں گے۔ ہم میں سے کچھ نے تو پہلے ہی لوہے کے پائپ کی جگہ پلاسٹک یا ربڑ کے پائپ استعمال کرنا شروع کردیے ہیں‘۔

ان میچوں کی نگرانی دو ریفری کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک ریفری ہدف کے برابر میں کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا ہدف کو نشانہ بنانے والے کھلاڑی کے قریب۔ ہدف کو نشانہ بنانے سے آپ کو دو پوائنٹس اور مزید ایک باری مل جاتی ہے۔ آپ کی باری اسی وقت ختم ہوتی ہے جب آپ کا نشانہ چوک جائے۔

بلوچستان حکومت کے صوبائی اسپورٹس بورڈ کی جانب سے رواں سال سنگ گیرک کو رجسٹر کرلیا گیا ہے۔ حکومت نے اس بات کا بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں سنگ گیرک کے سالانہ مقابلے منعقد کرنے کے لیے کھلاڑیوں کی مدد کرے گی۔

45 سالہ محمد اسحٰق کوئٹہ میں سنگ گیرک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ہیں انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ جس طرح میلہ ملاکھڑا اور کبڈی دیگر صوبوں کے روایتی کھیل ہیں اسی طرح سنگ گیرک بلوچستان کی ہزارہ برادری کی شناخت ہے۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہم ہر سال کوئٹہ میں سنگ گیرک کا ایک مقابلہ منعقد کرتے ہیں‘۔ انہوں نے زوار شاہ کے رواں سال کے چیمپئن ہونے کا بتاتے ہوئے کہا کہ ’ان کے کلب نے 2018ء میں پہلی مرتبہ ٹرافی جیتی تھی اور اب دوسری دفعہ 2021ء میں جیتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے ہم 2020ء میں ٹورنامنٹ منعقد نہیں کروا سکے تھے‘۔

اسحٰق کے مطابق بلوچستان حکومت نے سنگ گیرک کے لیے باقاعدہ میدان بھی فراہم کیا ہے۔ ان کے مطابق ’وہ 120 فٹ طویل اور 60 فٹ چوڑا ہے اور کوہِ مردار کے نزدیک واقع ہے‘۔

اسحٰق نے مزید بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے کھیل و ثقافت عبد الخلیق ہزارہ نے نا صرف بلوچستان میں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی اس قدیم کھیل کے فروغ کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ہم اس وقت قلات اور پھر بلوچستان کے ہر ضلع میں سنگ گیرک کے مقابلے کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

’ہمارا منصوبہ ہے کہ ہر صوبے میں سنگ گیرک کی انڈر 18، انڈر 17 اور انڈر 16 ٹیمیں بھی ہوں‘۔


یہ مضمون 31 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں