جنگ کے اضافی اخراجات نے امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کیا، رپورٹ

08 نومبر 2021
واٹسن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے 20 سال جاری رہنے والی جنگ میں 22 کھرب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی ہے—فائل فوٹو: اے پی
واٹسن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے 20 سال جاری رہنے والی جنگ میں 22 کھرب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی ہے—فائل فوٹو: اے پی

ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر سرکاری اندازے کے مطابق افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ میں امریکا کے اخراجات اس کے محکمہ دفاع (ڈی او ڈی) کے حساب سے دگنے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹریکشن (سیگار) ایک سرکاری ایجنسی ہے جو براہِ راست کانگریس کو رپورٹ کرتی ہے،اس نے رواں ہفتے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔

ان اعداد و شمار میں اس بات پر توجہ مبذول کروائی گئی ہے امریکا نے اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات پر افغان حکمت عملی پر نظر ثانی کی تھی۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ امریکا کی براؤن یونیوسٹی کے جنگ سے متعلق منصوبے میں امریکا نے 20 سال 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی جنگ میں 22کھرب 60 ارب ڈالر خرچ کیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں طویل ترین امریکی جنگ کھربوں ڈالرز اور ہزاروں زندگیاں نگل گئی

منصوبے کو یونیورسٹی کے معروف واٹسن انسٹیٹیوٹ فور انٹرنیشنل پبلک افئیر نے اسپانسر کیا تھا۔

واٹسن کی رپورٹ ڈی او ڈی کے 933 ارب ڈالرز کے غیر ملکی ممکنہ آپریشن (او سی او) کے بجٹ پر مشتمل ہے اور امریکا کی جانب سے او سی او بجٹ میں 59 ارب ڈالرز پاکستان اور افغانستان میں خرچ کیے گئے ہیں۔

ڈی او ڈی اخراجات کی رپورٹ کے برعکس واٹسن رپورٹ میں افغانستان میں جنگ کے مجموعی اخراجات ڈی او ڈی سے زیادہ 4 کھرب 33 ارب ڈالر بیان کیے ہیں۔

جس میں 2 کھرب 96 ارب ڈالرز سابق فوجیوں کے لیے معذوری اور طبی اخراجات میں ملنے والی رقم ہے جبکہ 530 ارب ڈالرز متعلقہ محکمہ خزانہ نے قرضہ پر سودکی لاگت ہے۔

30 جون 2021 کو جاری ہونے والی ڈی او ڈی کی تازہ ترین وار رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے اس کی مجموعی عنایت میں امریکا جنگ اور لڑائی کے بعد تعمیر نو شامل ہے، جس کی کل لاگت 8 کھرب 39 ارب 80کروڑ ڈالرز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں 20 برس کے دوران یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کیے

ملکی، یو ایس ایڈ اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے ادا کی جانے والی متعلقہ واجب الادا اور تعمیر نو کے اخراجات 49 ارب 70 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئے ہیں۔

سیگار کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2002 میں کانگریس نے افغانستان میں تعمیر نو اور متعلقہ سرگرمیوں کے لیے ایک کھرب 45 ارب 96 کروڑ ڈالرز سے زیادہ رقم مقرر کی تھی۔

اس رقم میں سے ایک کھرب 10 ارب 26 کروڑ ڈالر فعال تعمیر نو کے منصوبے کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔

بین الاقوامی انسداد منشیات اور قانون نافذکرنے والے ادارے (آئی این سی ایل ای) نے بتایا کہ انہوں 30 جون 2021 میں مجموعی طور پر 5 ارب 50 کروڑ ڈالرز اور 57 کروڑ ڈالرز فنڈز کی مجموعی تخصیص کی۔

اس ہی طرح 30 ستمبر 2021 کو تعمیر نو کے 6منصوبوں میں تقریباً 3 ارب 59 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی، جس کی تقسیم ابھی نہیں کی گئی ہے۔

سقوط کابل رواں سال اگست کے وسط میں ہوا جس کی وجہ سے کانگریس کی جانب سے افغانستان سیکیورٹی فورسز فنڈز ( اے ایس ایف ایف) کو فنڈز کی فراہمی تعطل کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا اور امریکا کی ویتنام جنگ میں ناکامی کا موازنہ

اس میں افغانستان نیشنل ڈیفنس فورسز (اے این ڈی ایس ایف)کے لیے آلات، اشیا ضروریات، سروسزم ٹریننگ، اور تنخواہوں کے لیے فنڈز کے علاوہ، انفرا اسٹریکچر کی تعمیر نو اور بحالی کی سہولیات بھی شامل تھیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 27 دسمبر 2020 کو مستحکم تصرف کے ایکٹ 2021 پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت مالیاتی سال 2021 کے لیے اے ایس ایف ایف کے لیے 3 ارب 59 کروڑ ڈالر مقرر کیے گئے تھے۔

2020 کے مالی سال کے لئے اے ایس ایف ایف کے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر منسوخ کر دیے گئے تھے ساتھ ہی 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کی حقیقی تخصیص کو کم کر کے 3 ارب 10 کروڑ ڈالر کردیا گیا تھا۔

مالی سال 2020-21 میں ڈی او ڈی نے ایک بار پھر اے ایس ایف ایف کے لیے ایک ارب 46 کروڑ ڈالرز کا پروگرام بنایا کہ تاکہ غیر ملکی ہمدردی اور شہری مدد ( او ایچ ڈی اےسی اے) اور ٹرانسپورٹیشن کیپیٹل فنڈز (ٹی ڈبلیو سی ایف) کے مد میں غیر ملکیوں کو افغانستان سے نکالا جاسکے۔

سال 2020 میں اے ایس ایف ایف اور مالی سال 2021 میں اے ایس ایف ایف رقم میں بالترتیب 2 ارب 95 کروڑ ڈالر اور تقریباً ایک ارب 75 کروڑ ڈالرز کمی گئی۔

30 ستمبر 2021 میں اے ایس ایف ایف کے لیے مجموعی رقم 81 ارب 44 ارب ڈالرز سے زائد تھی جس، اس کے علاقہ 76 ارب 39 کروڑ واجب الادا تھے اور تقریباً 75 ارب 72 کروڑ ڈالر ادا کیے گئے تھے۔

ڈی او ڈی کی اطلاعات کے مطابق واجب الادا رقم اضافے کے بعد مجموعی طور پر 19کروڑ 30 لاکھ 6 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئی ہے جبکہ مجموعی ادائیگیوں میں 51 کروڑ 46 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان کا مشورہ مان لیتا تو افغانستان میں طویل جنگ سے بچ جاتا، سابق آئی ایس آئی چیف

سیگار کی رپورٹ میں 8 ستمبر 2021 کو وزرا خارجہ کے ورچوئل اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان کا ذکر بھی کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی انسانی ہمدردی اور ضروریات کے پیش نظر پر پائیدار بین الاقوامی توجہ لازمی ہے۔

اس موقع پر ورچوئل اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ، چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی۔

افغانستان نے 6 پڑوسی ممالک نے اجلاس میں افغانستان میں سرحد پار سے سامان کی ترسیل کے لیے سہولیات فراہم کرنے اور بیرون حمایت تک رسائی کے لیے بندرگاہیں کھولی رکھنے پر خیالات کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس عمل سے انسانی امداد کے ساتھ افغانستان کو خطے کے ممالک میں اقتصادی، معاشی اور تجارتی روابط بحال کرنے میں مدد حاصل ہوسکے گی۔

سیگار کی دستاویزات میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان نے اطلاع دی تھی کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد افغانستان کی برآمدات میں 73 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور ملک میں معاشی بحران بڑھ گیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں یکم جولائی سے 15 اگست کے مقابلے 16اگست سے 30 ستمبر کے دوران افغان برآمدات کی قدر میں 142 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا، پاکستان اور افغانستان اہم تجارتی شراکتدار ہیں۔

سیگار کی رپورٹ میں غور کیا گیا کہ 2019 میں افغانستان کی مجموعی درآمدات 7 ارب 33 کروڑ تھی جبکہ اس کی برآمدات 9 کھرب 75 ارب ڈالر تھی۔

عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی مرچنڈائس ٹریڈ پر 6 ارب 36 کروڑ ڈالر منفی بیلنس تھا جو جی ڈی پی کا 30.1 فیصد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں