جب مہمان نوازی کی عادت ہی پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئی

20 دسمبر 2021
کشمیر میں تعمیر ہونے والے گھر عموماً دو منزلوں اور ایک بالا خانے پر مشتمل ہوتے ہیں جو رہائشیوں کی سماجی اور موسمی ضروریات کے مطابق ہوتے ہیں—تصویر: لکھاری
کشمیر میں تعمیر ہونے والے گھر عموماً دو منزلوں اور ایک بالا خانے پر مشتمل ہوتے ہیں جو رہائشیوں کی سماجی اور موسمی ضروریات کے مطابق ہوتے ہیں—تصویر: لکھاری

عابدہ غلام جیلانی یقیناً بستر پر بچھانے کے لیے سفید چادر کی حمایت کریں گی۔

35 سالہ عابدہ آزاد جموں و کشمیر میں وادی نیلم کے چھوٹے سے گاؤں شاردہ میں آنے والے سیاحوں کی رہائش کے لیے اپنے گھر کا کمرہ کرائے پر دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مہمان اکثر صاف ستھری اور استری شدہ سفید چادروں پر سونا پسند کرتے ہیں‘۔ وہ چَھپی ہوئی چادریں خود استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سفید چادروں سے ’کمرے میں ایک ترتیب نظر آتی ہے‘۔ اس دوران وہ یہ دیکھتی رہیں کہ آیا جس طرح انہیں بتایا گیا تھا، ویسے ہی چادر کو اچھی طرح سے بستر میں بِچھایا گیا ہے یا نہیں۔

سال 2018ء میں عابدہ اور کچھ درجن خواتین کو گھروں میں مہمان داری کے حوالے سے تربیت دی گئی تھی۔ اس تربیت کا انتظام ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن (ایچ ڈبلیو ایف) کی جانب سے کیا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان کے قدرتی وسائل کا تحفظ ہے۔ یہ ایک طرح سے ایئر بی این بی کی طرح کا نظام ہے جہاں گھر والے اپنے گھر کے کسی کمرے میں سیاحوں کو ٹھہراتے ہیں۔

میرے شوہر اور میں عابدہ کے سادہ سے گیسٹ روم میں 2 راتوں کے لیے قیام کر رہے تھے۔ ہمارا کمرہ گھر کی پہلی منزل پر تھا۔ لکڑی کا زینہ چڑھ کر اور بالکنی سے گزر کر جب ہم اس صاف ستھرے کمرے میں پہنچے تو مجھے محسوس ہوگیا کہ اس کمرے کو کسی خاتون کا ہاتھ ضرور لگا ہے۔

بستر پر ایک رنگین کشن رکھا تھا جس پر کڑھائی سے ’خوش آمدید‘ لکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ سائڈ ٹیبل پر بِچھے میز پوش بھی ہاتھ سے تیار کیے ہوئے تھے۔ ہلکے گلابی رنگ کی ٹائلوں والے باتھ روم کو دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا۔ وہ بالکل صاف ستھرا تھا اور وہاں مغربی طرز کا کموڈ اور مسلم شاور موجود تھا۔ اس کے علاوہ باتھ روم میں صابن کی نئی ٹکیا، دو عدد سفید تولیے اور ایک جوڑی ربڑ کی چپلیں بھی موجود تھیں۔

دریائے نیلم کے پار بھارتی گاؤں کیرن کا منظر
دریائے نیلم کے پار بھارتی گاؤں کیرن کا منظر

عابدہ نے مہمانوں کی میزبانی کا کام مارچ 2019ء سے شروع کیا تھا۔ ان کے گھر کے اس کمرے کا ایک رات کا کرایہ ڈھائی ہزار روپے ہے۔ وہ اب تک 60 ہزار روپے سے زیادہ رقم جمع کرچکی ہیں۔ وہ 5 بچوں کی ماں ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ثقافتی اعتبار سے تو ہم مہمان نواز ہیں ہی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ اس سے پیسے بھی کمائے جاسکتے ہیں۔

اپنے گھروں میں سیاحوں کی مہمان نوازی کرنے کا یہ خیال تو دراصل حکومت کا تھا جس نے اسے پاکستان پاورٹی ایلیویئشن فنڈ (پی پی اے ایف) نامی ایک غیر منافع بخش تنظیم کے سپرد کیا۔ پی پی اے ایف نے اس پراجیکٹ پر عمل درآمد کے لیے ایچ ڈبلیو ایف سے رابطہ کیا کیونکہ وہ گزشتہ 15 سال سے کشمیر کے علاقے میں کام کر رہی ہے۔

گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں جیسے اسکردو، چترال، سوات اور گلیات کی وادیوں میں سیاحت کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ تاہم بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ہونے اور سڑکوں اور مواصلات کی محدود سہولیات کی وجہ سے وادی نیلم اب تک بے داغ اور محفوظ ہے۔

یہاں کے رہائشیوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود اور موسمی ہوتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار گلہ بانی پر ہے۔ یوں جب ہوم اسٹے (سیاحوں کو گھروں میں ٹھہرانے) کا منصوبہ شروع ہوا تو اس وادی کو ترجیح دی گئی۔

بہت زیادہ قائل کرنے کے بعد سرداری گاؤں کے مقامی افراد نے 2018ء میں اپنے گھروں میں اجنبیوں کو ٹھہرانے کی اجازت دے دی۔ ان منصوبوں کی دیکھ بھال کرنے والی کنسلٹنٹ سمیرا رضا کے مطابق ’ہم نے مقامی افراد کی سوچ بدلنے کے لیے کئی ملاقاتیں کیں‘۔ اگلے سال تک ایچ ڈبلیو ایف نے شاردہ میں 17 مزید ہوم اسٹے منصوبے تیار کیے۔

اگرچہ کورونا کی وجہ سے اس منصوبہ کا وقت بہت اچھا نہیں تھا لیکن کچھ دیگر عوامل نے ان منصوبوں کو مکمل طور پر ناکام ہونے سے بچالیا۔ ورک فراہم ہوم اور بیرون ملک سفر پر پابندی کی وجہ سے اکثر پاکستانیوں نے بین الصوبائی سفر کی پابندی ہٹتے ہی پہاڑوں کا رخ کیا۔ اس دوران ورک-کیشن (Work-cation) یعنی کام کے دوران تفریح کرنے کی ایک نئی صورت سامنے آئی۔ کئی لوگوں نے فضائی سفر میں کورونا کا شکار ہونے کے خوف سے بذریعہ سڑک سفر کو ترجیح دی۔

جنوب میں کراچی جیسے دُور دراز شہر میں رہنے والوں نے بھی موٹروے پر سفر کرتے ہوئے پاکستان کی خوبصورتی کا مشاہدہ کیا کہ جنہوں نے اس سے قبل صرف غیر ملکی سفر ہی کیا تھا۔ برٹش بیک پیکرز سوسائٹی نے 2018ء میں پاکستان کو دنیا کے بہترین ایڈونچر مقامات میں شامل کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پہاڑ ’کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتے‘۔

ہماری میزبان عابدہ، مہمانوں کا کمرہ تیار کرتے ہوئے
ہماری میزبان عابدہ، مہمانوں کا کمرہ تیار کرتے ہوئے

اس وجہ سے گزشتہ کچھ سالوں میں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، سوات، چترال اور گلیات کی مسحور کن وادیاں سیاحوں سے کھچا کھچ بھری رہیں۔ رواں سال گرمیوں میں ان علاقوں کا رخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کرگئی جبکہ حکومت کا اندازہ ہے کہ موسمِ سرما میں بھی سیاحوں کی آمد جاری رہے گی۔

لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے مقبول سیاحتی مقامات ڈیویلپرز کی جنت بن گئے ہیں۔ اب ہر جگہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی کثیر المنزله عمارتیں نظر آتی ہیں۔

محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ، آزاد جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل، ارشاد پیرزادہ کشمیر میں اسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مقامی افراد کو ایئر بی این بی طرز کے کاروبار کی جانب راغب کرنے کی کوشش کریں گے، اس سے نہ صرف ہمارا ماحول بھی محفوظ رہے گا اور یہ ہماری ثقافت سے بھی مطابقت رکھتا ہے‘۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے پیچھے اصل خیال ’مقامی لوگوں کی شمولیت‘ کا ہے تاکہ مقامی ماحول برقرار رہے، مہمان ’یہاں کے کھانوں کے مزہ لیں اور قصہ خوانی سے متاثر ہوں‘۔

امید ہے کہ اس قسم کی رہائش کے نتیجے میں سیاح ناران، کالام اور نتھیا گلی جیسے چند مقامات کے علاوہ دیگر مقامات کا بھی رخ کریں گے۔ صرف چند مقامات پر سیاحوں کے رش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی ترجمان نے بتایا کہ ’یہ ماحول کے لیے بھی نقصاندہ ہے اور ان مقامات کو محفوظ اور صاف رکھنا بھی ناممکن ہے۔ ہوم اسٹے کی صورت میں کئی نئی وادیوں کی کھوج بھی ہوسکتی ہے جو اتنی ہی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اب تک پوشیدہ بھی ہیں‘۔

ثقافتی تربیت

ہمیں کمرہ دکھانے کے بعد عابدہ نے کمرے میں موجود ایک الماری کھولی جس میں بجلی سے چلنے والا ہیٹر اور اضافی کمبل رکھے تھے تاکہ اگر رات کے وقت سردی بڑھ جائے تو انہیں استعمال کیا جاسکے۔

عابدہ نے ہمیں بتایا کہ ’پن بجلی کے ذریعے یہاں 24 گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے‘، لیکن اگلے روز ایک طوفان کی وجہ سے بجلی کی تاریں ٹوٹ گئیں۔ اس شام عابدہ نے گھر کے چولہے پر پانی گرم کیا اور اوپر لاکر ہمیں دیا۔ میری نظریں شروع سے ہی باتھ روم میں نصب شاور پر تھیں تاہم شاور کے گرم پانی کے بجائے ہمیں ایک بالٹی اور مگ سے نہانا پڑا۔

ہمارے قیام کے دوران عابدہ نے ہمارے کپڑے دھوئے، بستر تیار کیے اور ہمارا باتھ روم صاف کیا۔ وہاں ہمیں جو کھانے پیش کیے گئے وہ بھی لاجواب تھے۔ گھر میں بنے ناشتے میں تازہ پراٹھے، آملیٹ اور گھر پر بنا خالص مکھن اور چائے شامل تھی۔ رات کے کھانے میں مرغی اور پالک کی طرح کی کوئی بہت ذائقہ دار سبزی تازہ چپاتی کے ساتھ پیش کی گئی۔ ہم کھانا ساتھ والے گھر میں عابدہ کی بہن کے یہاں کھاتے تھے جہاں ہمارے باقی دوست ٹھہرے ہوئے تھے۔

سمیرا رضا کے لیے ایسی خواتین کو ڈھونڈنا تو آسان تھا جو اپنے گھر کے کم از کم 2 کمرے مہمانوں کے لیے وقف کردیں اور ان کی مرمت کروا دیں۔ تاہم ان کے لیے خواتین کو مہمان نوازی سکھانا بہت مشکل تھا۔ ان کے مطابق ’یہ اس پورے منصوبے کا سب سے مشکل حصہ تھا‘۔

سمیرا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے مہمانوں کی میزبانی، کھانا پکانے اور سیاحوں سے ملنے جلنے کے حوالے سے ایک تربیتی موڈیول تیار کیا جس میں لیکچرز، ویڈیوز اور عملی تجربے شامل تھے۔ یہ تربیت زیادہ تر عملی تجربے کی بنیاد پر کی گئی‘۔ تاہم یہ منصوبہ سمیرا کے اندازے سے بھی بڑا نکلا۔ بستر اور میز تیار کرنے کے لیے خواتین کی تربیت کے ساتھ ساتھ سمیرا نے انہیں حفظانِ صحت کا بھی خیال رکھنے پر راغب کیا۔ ان کے مطابق ’مجھے یہ کام بہت ڈھکے چھپے انداز میں کرنا تھا تاکہ انہیں بُرا نہ لگے‘۔

سمیرا نے ان خواتین کو بتایا کہ اپنے دوپٹے یا شال سے بچوں کی ناک صاف کرنا، ڈبلیو سی لگے ہوئے باتھ روم میں فرش پر کپڑے دھونا یا سردیوں کے مہینوں میں دھوئیں سے بھرے باورچی خانے میں سونا (حرارت کی وجہ سے) جہاں ہوا کے گزر کا مناسب انتظام نہ ہو مضرِ صحت بھی ہے اور حفظانِ صحت کے خلاف بھی۔

عابدہ نے اعتراف کیا کہ ’مغربی کموڈ اور مسلم شاور ہمارے لیے نئی چیز تھی۔ سمیرا میڈم نے ہمیں بتایا کہ بزرگوں یا چھوٹے بچوں یا جن افراد کو گھٹنوں میں تکلیف ہو ان کے لیے ڈبلیو سی کا استعمال مشکل ہوسکتا ہے‘۔

عابدہ کو صفائی ستھرائی کے لیے جن آلات اور کیمیکلز سے متعارف کروایا گیا انہیں ان میں سے اکثر کے بارے میں پہلے سے کچھ معلوم نہیں تھا۔

عابدہ نے بتایا کہ ’ہمیں سکھایا گیا کہ اگر ہمیں مغربی خواتین کا لباس عجیب بھی لگے تب بھی ہم اس کو گُھور کر نہ دیکھیں‘۔ ایچ ڈبلیو ایف نے عابدہ کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ رہائش گاہوں کی نگرانی کریں تاکہ خواتین دوبارہ پرانے طریقوں کو اختیار نہ کرلیں۔

ان میزبانوں کو کام کے دوران پیش آنے والی حراسانی اور اس سے نمٹنے کے حوالے سے بھی تربیت دی گئی ہے۔

اگرچہ ان مقامی رہائش گاہوں سے نکلنے والی گرین ہاؤس گیسوں کو ناپنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن مغربی ممالک میں ایئر بی این بی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہوٹلوں کی نسبت ایئر بی این بی میں پانی اور توانائی کا استعمال کم ہوتا ہے اور یہاں کچرا بھی کم پیدا ہوتا ہے۔

ضابطہ اخلاق

آزاد جموں و کشمیر میں جاری یہ منصوبہ دیگر سیاحتی علاقوں کے لیے بھی مثال بن رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ کھیل، ثقافت، سیاحت، آثارِ قدیمہ و امورِ نوجوانان کے سیکریٹری عابد مجید کے سامنے بھی یہی منصوبہ ہے تاہم ان کے عزام مزید بلند ہیں۔

سال 2019ء میں صوبائی کابینہ نے نوجوانوں کو کاروبار میں مدد دینے کے لیے 3 ارب 80 کروڑ روپے جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ عابد مجید کے مطابق ’ہمارا منصوبہ ہے کہ اس رقم کا 10 فیصد حصہ ’اینوویشن فنڈ فار انٹر پرینیورز، یوتھ اینڈ ویمن‘ اسکیم کے تحت سیاحتی علاقوں میں ہوم اسٹے کے لیے خرچ کیا جائے اور اس اسکیم میں مخنث افراد اور معزور افراد پر خصوصی توجہ دی جائے‘۔

تاہم اس منصوبے سے ہر فرد مطمئن نہیں ہے۔

سسٹین ایبل ٹؤرازم فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر آفتاب الرحمٰن رانا اس ہوم اسٹے منصوبے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ’مقامی آبادی کی سماجی و ثقافتی زندگی پر تباہ کن اثرات ڈالے گا‘، ساتھ ہی یہ ماحول کے لیے بھی نقصاندہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ذاتی طور پر میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ باقاعدہ ہوم ورک کیے بغیر پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی رہائش کے یہ منصوبے شروع کیے جائیں‘۔

آفتاب الرحمٰن رانا کے مطابق ایک قدامت پسند معاشرے میں اختلافات کو کم کرنے اور سیاحت کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے سیاحوں اور خدمات فراہم کرنے والے مقامی افراد کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان تمام رہائش گاہوں کو مقامی انتظامیہ کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے اور خدمات کے کم از کم معیار کو برقرار رکھنے کے لیے سرٹیفیکیشن اور مانیٹرنگ کا ایک نظام تیار کرنا چاہیے۔

اسی دوران آزاد جموں و کشمیر میں ہوم اسٹے منصوبہ فروغ پارہا ہے۔ دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ تیجیاں، ڈھڈنیال اور بیلہ محمد خان کے علاقوں میں سیاحوں کے لیے 17 نئے کمرے تیار کیے جارہے ہیں۔ سمیرا رضا کے مطابق 'ہم گھروں کے مالکان کو بھی قائل کررہے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے دوسرے کمرے کی بھی اپنے خرچ پر مرمت کریں۔ کیونکہ وہ سیاح جو اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ ایک ہی گھر میں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں‘۔

وہ پُرامید ہیں کہ اپریل 2022ء تک یہ کمرے مہمانوں کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ سمیرا نے بتایا کہ ماضی کی کمیوں کو دُور کرتے ہوئے اس مرتبہ اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ ان کمروں سے وادی، دریا اور پہاڑوں کا دلکش نظارہ ممکن ہوسکے، اس کے علاوہ وہاں بذریعہ سڑک پہنچا جاسکتا ہو اور گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ موجود ہو۔

لیکن اس کام کے بھی اپنے چیلنجز ہیں۔ سمیرا کے مطابق حکومتی طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’کام شروع کرنے کے لیے ہمیں حکومت سے این و سی اور انٹیلی جنس کلیئرنس کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایل او سی کے بہت نزدیک ہیں‘۔ جس وقت تک یہ معاملات حل ہوں گے تب تک کمروں کی مرمت اور تیاری کے لیے بہت کم وقت رہ جائے گا۔ سمیرا نے بتایا کہ ایک بار جب سردیاں آجائیں اور برف پڑنے لگے تو ہمارا کام رک جائے گا‘۔

توسیع اور مرمت کے کام کے لیے گھر کے مردوں کے بجائے گھر کی خواتین کو سود سے پاک قرضے دیے جاتے ہیں تاکہ ’وہ (خواتین) اپنی قدر محسوس کریں‘۔ تاہم سمیرا خود اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ مالی معاملات پھر بھی مردوں کے ہاتھ میں ہی ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’گھر کی خواتین کے بغیر مرد وہ قرض بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس طرح خواتین کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس ہوگا‘۔ عابد مجید کے مطابق اگر یہ منصوبہ خیبر پختونخوا میں بھی شروع ہوگیا تو یہاں بھی خواتین کو یہی فوائد حاصل ہوں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی خواتین کو معاشی آزادی دیتی ہیں، خاندان میں ان کی سماجی حیثیت میں اضافہ کرتی ہیں، اور بیواؤں کی مدد کرتی ہیں جنہیں عام طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے‘۔

عابدہ کے لیے یہ چھوٹا کاروبار مناسب ہے جسے وہ اپنے گھر سے ہی چلاتی ہیں۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو بھی سنبھال سکتی ہیں اور گھر کے کام بھی انجام دے سکتی ہیں۔ وہ اب ایسی آسائشات اور سہولیات حاصل کرنے کے قابل ہوچکی ہیں جن کا حصول ماضی میں ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے جو رقم کمائی ہے اس سے میں نے ایک واشنگ مشین اور ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی خریدا ہے، اس کے علاوہ گھر کی کچھ مرمت بھی کروائی ہے‘۔

ہماری میزبان نے ہماری ضروریات کو پورا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی، ان کے گھر سے نظر آنے والا دریا اور پہاڑوں کا نظارہ بھی خوب تھا۔ جیسے ہی ہم شام کی ہوا کا لطف لینے بالکنی میں رکھی کرسیوں پر بیٹھے تو عابدہ نے شرماتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا میں آپ کے لیے چائے لے آؤں‘۔


یہ مضمون 14 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Bajwa Dec 20, 2021 01:44pm
Superb Ideas. Listened some thing refreshing after a long time in this suffocating Society.