رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے گلاسگو میں ہونے والے اجلاس میں کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوسکا جس کی ہماری اس بیمار زمین کو سخت ضرورت تھی۔

کورونا کی پابندیوں کے باوجود اس اجلاس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں سے اکثر کا تعلق ان مغربی ممالک سے تھا جو اس ماحولیاتی بحران کے براہِ راست ذمہ دار تھے۔ مگر آئرلینڈ کی سابق وزیرِاعظم میری رابنسن کہتی ہیں کہ ان میں سے کچھ ہی ایسے تھے جو اس صورتحال کو واقعی ایک بحران سمجھ رہے تھے اور جلد از جلد اتفاق رائے پر پہنچنے کی ضرورت سے آگاہ تھے۔

اتوار کے روز اس اجلاس کے اختتام پر ایک معاہدہ طے پایا لیکن اس میں کسی خاص عزم کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ معاہدے میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا تھا کہ اگلے سال مصر میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک اور اجلاس ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ تب تک آلودگی کے اخراج اور حفری ایندھن (فوسل فیول) پر انحصار کو کم کرنے کا کوئی معاہدہ طے پا جائے جو اصل منزل بھی ہے۔

دنیا میں آلودگی کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار 2 ممالک چین اور بھارت ہیں، اس سال ان دونوں ممالک کو ہی کسی ٹھوس عزم کے اظہار پر قائل نہیں کیا جاسکا۔ شاید اگلے سال تک یہ ممالک بھی معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرلیں۔

مزید پڑھیے: تحفظِ ماحول کے معاہدے اور جو بائیڈن کی مشکلات

اس اجلاس کے حوالے سے اس سے زیادہ امید افزا بات نہیں کی جاسکتی۔ اگر اس کا سخت محاسبہ کیا جائے تو یہ چمک دمک سے بھرپور سفارتی اجلاسوں کا ایک ماڈل تھا جس میں دنیا کے نااہل بین الاقوامی اداروں کے بیوروکریٹس کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یوں اس وقت دنیا کے سامنے جو مسئلہ موجود ہے اس کی نوعیت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے ذہن لڑانے کی ضرورت نہیں کہ یہ اجلاس ایک احمقانہ چیز کیوں ہے۔ اس میں شرکت کے لیے ہزاروں مندوبین ہر طرح کے ملک سے ان گنت پروازوں کے ذریعے اور ہزاروں گیلن حفری ایندھن جلاکر اجلاس کے مقام تک پہنچے، یہاں بھی ان کا مقصد ان دیگر مندوبین سے گپ شپ کرنا تھا جن سے وہ کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں مل سکے تھے۔

اگر یہ اجلاس کچھ تھا تو یہ صرف عالمی سفارت کاری اور بیوروکریسی کو فروغ دینے والوں کی جانب سے اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اب دوبارہ متحرک ہوچکے ہیں۔ خود اس اجلاس سے پھیلنے والی آلودگی (جبکہ یہ اجلاس آلودگی کو روکنے کے لیے ہی تھا) اس بات کی مثال ہے کہ ہم اس صورتحال تک کیسے پہنچے، لیکن شاید اس اجلاس کا انعقاد کرنے والے اور اس میں شرکت کرنے والے اس بات سے لاعلم تھے۔

اس بات کی سچائی کا اندازہ ان ممالک کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو واقعی خطرات سے دوچار ہیں۔ مالدیپ کے کئی چھوٹے جزیرے سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ڈوبنے کے قریب ہیں۔ مالدیپ کی نمائندہ نے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کو جواز فراہم کرنے کے لیے یہاں جو بھی چھوٹے چھوٹے معاہدے کیے جائیں گے وہ ان کے ملک کو بچانے کے لیے ناکافی ہوں گے۔

اس کے علاوہ اکثر جنوبی ممالک تو کورونا حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرسکے۔ تقریباً تمام مغربی ممالک کے برعکس ان ممالک کو کورونا ویکسین تک فوری رسائی حاصل نہیں تھی جس وجہ سے وہ اجلاس کے لیے جاری کردہ قرنطینہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار دستاویزات فراہم نہیں کرسکے۔

مزید پڑھیے: کیا ماحولیاتی تحفظ کے لیے پاک-امریکا تعاون ممکن ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی عالمی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ پیسہ بھی ہے۔ اس وقت کاربن آف سیٹس (carbon offsets) (جن کے ذریعے آلودگی پھیلانے والی کمپنیاں پھیلائی گئی آلودگی کے بدلے پیسے ادا کرتی ہیں) میں عالمی مارکیٹ کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے امیر ممالک کو رقم ادا کی جائے گی۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امیر ممالک ہی اس آلودگی کے ذمہ دار ہیں جو ہماری دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اس وجہ سے غریب ممالک بھی کاربن آف سیٹس کی فروخت سے ملنے والی رقم میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ وہ اس رقم کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی بیماریوں کے علاج میں اپنی آبادی کی مدد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین اس تجویز کے خلاف ہیں۔

پیسوں کے حوالے سے یہ واحد مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ 10 سال قبل ممالک نے 100 ارب ڈالر کا فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا کام ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو ’کلائمیٹ فنڈ‘ فراہم کرنا تھا۔ اس فنڈ میں اب بھی کئی ارب ڈالر اس وجہ سے کم ہیں کہ جن امیر ممالک نے اس میں حصہ ڈالنے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے اب تک وہ رقم ادا نہیں کی ہے۔

ماحولیات کے حوالے سے ایک مسئلہ اور بھی ہے اور اس کا بہترین اظہار وزیرِاعظم پاکستان کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے بخوبی کیا ہے۔ ہندوستان جیسے ممالک کی جانب سے طویل مدتی نیٹ زیرو اہداف کا مذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’60 سال کی اوسط عمر کے حساب سے مجھے نہیں لگتا کہ اس کمرے میں بیٹھا کوئی بھی فرد اتنی طویل عمر پائے گا کہ وہ 2070ء میں نیٹ زیرو ہدف کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ سکے'۔

مزید پڑھیے: تحریک انصاف کے 3 سال اور ماحولیات سے متعلق ہونے والے مثبت کام

یہ اس بات کا اظہار ہے کہ امیر ممالک تو پہلے ہی بڑی صنعتوں سے چھٹکارا حاصل کرچکے ہیں۔ یہی صنعتیں بڑے پیمانے پر آلودگی کے اخراج اور عالمی سطح پر درجہ حرارت کے بڑھنے کا باعث تھیں۔ تاہم یہ ممالک بھارت جیسے غریب ملک اور یہاں تک کہ چین کو بھی یہی راستہ اختیار کرنے سے روک نہیں سکے۔

یہ ممالک پیداوار کو آج بھی اپنی معیشتوں کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ اب تک چین اور بھارت کو کوئی یہ نہیں سمجھا سکا کہ دولت حاصل کرنے کے بدلے میں وہ جتنی آلودگی پھیلارہے ہیں اس کے نتیجے میں کوئی ایسی دنیا ہی نہیں بچے گی جہاں وہ اپنی طاقت کا اظہار کرسکیں گے۔

لوگوں کی عمر کے حوالے سے موجود مسئلہ بھی اہم ہے۔ 50 سال سے زائد عمر کے لوگوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایسی دنیا میں گزارا ہے جہاں بڑے شہروں میں اسموگ اور سانس کے مسائل روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں تھے۔

یہاں تک کہ جس دوران اس اجلاس کی تیاریاں ہورہی تھیں اس دوران بھی گزشتہ جمعرات کو لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 700 سے بھی زیادہ تھا اور لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔ یہ شہر کی تاریخ میں سب سے زیادہ اے کیو آئی تھا۔ اس کے بعد سے اس صورتحال میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنوبی ممالک میں زندگی گزارنے اور سانس لینے کی صورتحال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے، اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس پر تاخیر سے کام لیا جائے۔


یہ مضمون 17 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں