پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا کاربن اخراج نسبتاً نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان 8ویں نمبر پر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے تھنک ٹینک جرمن واچ کی جنوری 2021ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان 5ویں جبکہ 2019ء میں 8ویں نمبر پر تھا۔ تھنک ٹینک کے مطابق ہیٹی، فلپائن اور پاکستان مسلسل موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں اور یہ ایک پریشان کُن بات ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان 8ویں نمبر پر ہے
موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان 8ویں نمبر پر ہے

کاربن اخراج یا کاربن فٹ پرنٹ کیا ہے؟

کاربن فٹ پرنٹ دراصل انسانوں کی مختلف سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیس سمیت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کہتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز دنیا کا درجہ حرارت متوازی رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن اگر ان کے اخراج میں زیادتی ہوجائے تو دنیا کے کاربن سائیکل میں بگاڑ اور گلوبل وارمنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

عام طور پر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا کاربن فٹ پرنٹ زیادہ ہوتا ہے۔ کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جن میں قابلِ تجدید توانائی کا حصول، ذرائع آمد و رفت میں بائیو فیول کے استعمال، گاڑیوں میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانا شامل ہیں۔ انفرادی طور پر جو اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ان میں زیادہ پیدل چلنا، سائیکل چلانا اور ڈرائیونگ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال میں لانا، پلاسٹک اور اس سے بنی اشیا کا استعمال کم سے کم کرنا اور کم سے کم سرخ گوشت کا استعمال کرنا شامل ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا کاربن فٹ پرنٹ زیادہ ہوتا ہے—اے پی
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا کاربن فٹ پرنٹ زیادہ ہوتا ہے—اے پی

یہ وہ اقدامات ہیں جن سے کاربن اخراج یا کاربن فٹ پرنٹ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دنیا کے وہ 10 ممالک جن کا کاربن اخراج سب سے زیادہ ہے ان میں

  • چین 9.3 گیگا ٹن کے ساتھ اول نمبر پر ہے
  • امریکا 4.8 گیگا ٹن کے ساتھ دوسرے نمبر پر
  • بھارت 2.2 گیگا ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر
  • روس 1.5 گیگا ٹن کے ساتھ چوتھے نمبر پر
  • جاپان 1.1 گیگا ٹن کے ساتھ پانچویں نمبر پر
  • جرمنی 0.7 گیگا ٹن کے ساتھ چھٹے نمبر پر
  • جنوبی کوریا 0.6 گیگا ٹن کے ساتھ ساتویں نمبر پر
  • ایران 0.6 گیگا ٹن کے ساتھ آٹھویں نمبر پر
  • کینیڈا 0.5 گیگا ٹن کے ساتھ نویں نمبر پر جبکہ
  • سعودی عرب 0.5 گیگا ٹن کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے

گلوبل وارمنگ اور پاکستان پر اثرات

اگرچہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 20 ممالک میں بھی نہیں ہوتا جو کاربن اخراج اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سامنا ہے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو صرف، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سالانہ 3.8 ارب ڈالرز نقصان کا سامنا ہے۔

ماحولیاتی تغیر اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان میں غربت کے خاتمے، پائیدار ترقی اور ملازمت کے نئے مواقع کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 2018ء میں جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئی تو وزیرِاعظم عمران خان کی اوّلین ترجیحات میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا اور پاکستان کو سرسبز و شاداب بنانا شامل تھا۔

کاربن اخراج اور گلوبل وارمنگ میں حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سامنا ہے—رائٹرز
کاربن اخراج اور گلوبل وارمنگ میں حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کا سامنا ہے—رائٹرز

کلین گرین پاکستان

13 اکتوبر 2018ء کو وزیرِاعظم عمران خان نے کلین گرین پاکستان مہم کا آغاز کیا۔ صاف اور سبز پاکستان بنانے کی مہم کے 5 بنیادی نکات ہیں جن میں

  • شجر کاری،
  • ٹھوس فضلہ (سولڈ ویسٹ) منیجمنٹ،
  • مائع فضلہ (لکویڈ ویسٹ) منیجمنٹ،
  • صفائی ستھرائی اور
  • پینے کے صاف پانی کی فراہمی شامل ہیں۔

اس مہم کا اہم مقصد شہریوں تک بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ صاف اور سرسبز پاکستان کے لیے ذمہ داری بھی تفویض کرنا تھا۔

وفاقی حکومت نے اس مہم کی کامیابی کے لیے ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت 5 بنیادی اہداف کو حاصل کرنے پر بہترین شہر، جامعات اور اداروں کے لیے ایوارڈز اور سرٹیفکیٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ قدم ایک صحتمند مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ صاف اور سبز پاکستان کی جانب حکومت کا ایک اہم قدم ہے۔

ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام

2 ستمبر 2019ء کو وزیرِاعظم پاکستان نے 'ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام' کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کا پہلا مرحلہ 4 برسوں (2019ء سے 2023ء تک) پر محیط ہے اور اس کی مجموعی لاگت 125.18 ارب روپے سے زائد ہے۔

یہ پراجیکٹ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے تحت صوبائی اور علاقائی محکمہ جنگلات اور محکمہ جنگلی حیات کی مدد سے مکمل کیا جائے گا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد پاکستان میں جنگلات، جنگلی حیات اور اس سے جڑے وسائل کی بحالی، محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کے تحفظ میں مزید بہتری لانا، ایکو ٹؤرازم کا فروغ، مقامی افراد کی شراکت داری اور اس سے جڑے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ کورونا وبا کے دوران محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات نے ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت 84 ہزار 609 دیہاڑی داروں کو گرین جابز یا سبز ملازمتیں فراہم کیں۔

2ستمبر 2019ء کو وزیرِاعظم پاکستان نے 'ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام' کا آغاز کیا تھا—فائل فوٹو
2ستمبر 2019ء کو وزیرِاعظم پاکستان نے 'ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام' کا آغاز کیا تھا—فائل فوٹو

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال مون سون میں شجرکاری کے لیے 502.5 ملین پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کا آغاز یکم اگست 2021ء کو وزیرِاعظم عمران خان نے کردیا ہے۔ اس سال کی جانے والی شجرکاری کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی شجرکاری قرار دیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں 65 ملین، سندھ میں 215 ملین، بلوچستان میں 10 ملین، خیبر پختوخواہ میں 185 ملین، گلگت بلتستان میں 5.5 ملین جبکہ آزاد جموں کشمیر میں 22 ملین پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 2021ء تک ایک ارب درخت لگائے جاچکے ہیں اور یہ شجرکاری ملک بھر میں 9 ہزار سے زائد مقامات پر کی گئی ہے۔

شجر کاری، جنگلی حیات کا تحفظ، نیشنل پارکس کے تحفظ اور اس سے جڑی جنگلی حیات اور ایکو ٹورازم کا فروغ، شہد کی پیداوار اور اس کی برآمدات، روزگار کے مواقع اور زیتون کے درخت لگانے جیسے اقدامات سے پاکستان ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے کاربن اخراج کے اثرات اور گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں مدد ملی جس کا اعتراف بون چیلنج میں کیا گیا۔ کاربن اخراج اور گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ پاکستان نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔

گرین بانڈز

حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گرین بانڈز کا اجرا کیا۔ ان بانڈز کے اجرا کا بنیادی مقصد اس سے حاصل ہونے والے سرمایے سے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار اور ماحولیاتی تحفظ کے دیگر منصوبوں کی تکمیل ہے۔ حکومت کو ان بانڈز کے اجرا سے توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔

موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے ایک چیلنج ہے۔ کاربن اخراج اور اس کے نتیجے میں بڑھتا ہو درجہ حرارت اس کرہ ارض پر بسنے والے انسان، جنگلات، جنگلی حیات، سمندر و سمندری حیات اور گلیشیئرز پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ گلیشیرز کے پگھلاؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کی وجہ بن رہی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں بہت سے جزائر اور ممالک کے سمندر برد ہوجانے کا خدشہ ہے۔ معمول سے زیادہ بارشیں یا بارشوں کا بالکل نہ ہونا، سیلاب یا خشک سالی، جنگلات میں آگ لگ جانا، زرعی اجناس کی کمیابی یا انہیں زیادہ بارش اور سیلاب سے تباہی کا سامنا ہے۔

کاربن اخراج میں صفِ اول کے ممالک کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان نے اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے سمت کا تعین کرلیا ہے۔ دیگر ممالک کا کردار مستقبل میں گلوبل وارمنگ میں کمی یا اس میں اضافے کا تعین کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں