میانمار: آنگ سان سوچی پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام عائد

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2021
اگر جرم ثابت ہوگیا تو انہیں کئی سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی
اگر جرم ثابت ہوگیا تو انہیں کئی سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی

میانمار کی جنتا نے رہنما آنگ سان سوچی پر سال 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کردیا۔

سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان کی پارٹی کی بھاری اکثریت سے فتح کے بعد یہ الزامات تازہ ترین ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فروری سے ملک بھر میں احتجاج اور مخالفین کے خلاف فوج کے جان لیوا کریک ڈاؤن کے بعد ہنگامے برپا ہیں۔

ملک میں بغاوت کے بعد زیر حراست 76 سالہ آنگ سان سوچی پر غیر قانونی واکی ٹاکیز برآمد ہونے، بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں اور اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے تو انہیں کئی سال تک جیل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میانمار کے سرکاری اخبار ’گلوبل نیوز لائٹ‘ کے مطابق آنگ سان سوچی پر اب ’الیکشن میں دھاندلی اور غیر قانونی عمل‘ کی بھی ملزمہ ہیں۔

تاہم اخبار نے عدالتی کارروائی کی تاریخ کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت: آنگ سان سوچی پر غیر قانونی آلات کی درآمد کے الزامات عائد

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنگ سان سوچی کے علاوہ دیگر 15 عہدیداران پر بھی اسی نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں، ان میں الیکشن کمیشن کے سابق چیئرمین اور سابق صدر ون مائنٹ بھی شامل ہیں۔

میانمار رہنما کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو 2015 کے مقابلے 2020 میں زیادہ ووٹ سے حمایت حاصل ہوئی، جس کے بعد انہوں نے فوج کی حمایت یافتہ جماعت کو شکست دی۔

تاہم جنتا نے اقتدار میں قبضہ حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے میانمار میں جمہوری دور کو ختم کردیا گیا۔

جولائی میں انہوں نے انتخابات کے نتائج کو منسوخ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ الیکشن میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد ووٹرز کی بےضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

2020 کے الیکشن کی رپورٹ کے مطابق، ایشین نیٹ ورک فار فری الیکشنز مانیٹرنگ گروپ کا کہنا تھا کہ یہ ’بڑے پیمانے پر عوام کی خواہش کی نمائندگی تھی‘۔

مزید پڑھیں: ماضی میں ہر بار سرخرو رہنے والی آنگ سان سوچی اس بار کیا کریں گی؟

بین الاقوامی کرائسز گروپ میانمار کے سینئر مشیر ریچرڈ ہارسی کا کہنا تھا کہ ’جنتا انتخابات میں دھاندلی کے جعلی دعووں کو بغاوت کے کلیدی جواز کے طور پر پیش کر رہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مٹھی بھر لوگوں کی شناخت کرنے میں دو بار ناکامی کے بعد اب یہ این ایل ڈی کے رہنماؤں کے پیچھے پڑ گئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ’ آنگ سان سوچی اور این ایل ڈی کو ووٹرز کی جانب سے زبردست حمایت حاصل ہے جس کی وجہ اس مجرمانہ فیصلے سے کوئی قائل نہیں ہوگا‘۔

جنتا نے این ایل ڈی کو تحلیل کرنے کی دھمکی دی تھی جبکہ ایک ماہ قبل آنگ سان سوچی کے قریبی ساتھی وین ہٹین کو غداری کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یاد رہے آنگ سان سوچی پر کورونا وائرس کی پابندیوں کے دوران انتخابی مہم چلانے کے الزام میں پہلے ہی ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔

فوج کے تعمیر کردہ دارالحکومت نیپیداو میں خصوصی عدالت میں کارروائی کے دوران صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور جنتا نے ان کی قانونی ٹیم کو بھی میڈیا سے گفتگو کرنے سے روک دیا تھا۔

30 نومبر کو فوج کے خلاف اکسانے سے متعلق مقدمے پر فیصلہ سنایا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف فیصلہ کیا گیا تو انہیں 3 سال جیل کی سزا سنائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: غداری کے مقدمے میں آنگ سان سوچی کے خلاف ٹرائل کا آغاز

ینگون کے سوئی مائنٹ آنگ نے کہا کہ جنتا کے سربراہ مین آنگ ہلائنگ کا کہنا ہے کہ سال 2023 کے اگست میں نئے انتخابات کا انعقاد اور ملک میں ایمرجنسی ختم کردی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد ابتدا میں بتائی گئی مدت کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تازہ انتخابات کے لیے کوئی ’عوامی حمایت نہیں‘ ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں ہنگامی حالات پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے ’تشدد فوری روکنے‘ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات یقینی بنائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں کسی بھی الیکشن کے لیے جنتا کو عوام اور جمہوریت نواز اپوزیشن متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں