نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کا پھر وکالت نامے پر دستخط سے انکار

17 نومبر 2021
نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے ایک مرتبہ پھر وکیل کی خدمات لینے سے انکار کردیا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے ایک مرتبہ پھر وکیل کی خدمات لینے سے انکار کردیا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے ایک مرتبہ پھر قانونی نمائندگی کے حصول کے لیے وکالت نامے پر دستخط سے انکار کردیا ہے اور ان کا اصرار ہے کہ انہیں اپنی پسند کا وکیل چاہیے۔

بدھ کو مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے وکیل ملک امجد کو ملزم سے وکالت نامہ پر دستخط کرانے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ظاہر اس سے قبل عدالت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سرکاری وکیل کی خدمات بھی لینے سے انکار کر چکے ہیں۔

جج کی ہدایات کے باوجود ظاہر جعفر نے وکالت نامے پر دستخط نہ کیے اور ملک امجد کو اپنا وکیل تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

ملزم نے کہا کہ یہ میرے وکیل نہیں، میں وکالت نامے پر دستخط نہیں کروں گا، میرے وکیل بابر ہیں جو بیرسٹر ہیں اور وہ آرہے ہیں۔

ظاہر کے انکار پر جج نے ریمارکس دیے کہ مرکزی ملزم کے وکیل موجود نہیں ہیں، ملزم نے کہہ دیا ہے وہ وکالت نامے پر دستخط نہیں کریں گے، اب جیل ہی سے دستخط کروائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ’غلط الفاظ‘ پر جج نے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا

ظاہر جعفر نے ایک ایسے موقع پر وکالت نامے پر دستخط سے انکار کیا ہے جب سماعت کے دوران گواہوں ہیڈ کانسٹیبل جابر، کمپیوٹر آپریٹر مدثر، اے ایس آئی دوست محمد اور ڈاکٹر شازیہ سے جرح کی گئی۔

پچھلی سماعت پر ملزمان کے وکلا نے نیشنل فرانزک کرائم ایجنسی کے سربراہ محمد عمران اور اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں ہومی سائیڈ انویسٹی گیشن یونٹ کے اہلکار سکندر حیات سے جرح کی تھی۔

سماعت کے دوران وکیل اکرم قریشی اور شہزاد قریشی نے تھیراپی ورکس ملازمین کی نمائندگی کی، سجاد احمد بھٹی اور ملک شہباز رشید ملزم ظاہر جعفر کے گھریلو ملازمین کے قانونی مشیر کے طور پر پیش ہوئے جبکہ وکیل اسد جمال ظاہر کی والدہ اور ایڈووکیٹ بشارت ظہیر ان کے والد ذاکر جعفر کے قانونی مشیر کے طور پر پیش ہوئے تھے۔

ملزمان کے وکلا نے ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر لیک ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کا مکمل ریکارڈ طلب کرنے کی درخواست بھی دائر کی تھی، انہوں نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ وہ لیک ہونے والی ویڈیو کی انکوائری کا حکم دیں۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

ڈاکٹر شازیہ سے جیسے ہی جرح شروع کی گئی تو ملزم کے ایک وکیل نے استدلال کیا کہ خاتون افسر گواہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس نے جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ ضمنی ہیں۔

ڈاکٹر شازیہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ہدایت پر ڈاکٹر سائرہ نے نور مقدم کا پوسٹ مارٹم کیا اور بعد میں رپورٹ تیار کی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لاش کو تحویل میں لیے جانے کے بعد پہلا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر عثمان نے کیا تھا، دوسرے پوسٹ مارٹم کی اجازت مجسٹریٹ سے حاصل نہیں کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے 14 اکتوبر کو ظاہر کے ساتھ مقدمے میں ان کے والدین سمیت 11 دیگر افراد پر فرد جرم عائد کی تھی اور قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش علاقے سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں