طالبان کا امریکی کانگریس سے اثاثے غیر منجمد کرنے، پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2021
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے اراکین اس سلسلے میں اچھی طرح سوچیں گے — فائل فوٹو: اے پی
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے اراکین اس سلسلے میں اچھی طرح سوچیں گے — فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے ایک مراسلے میں امریکی قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ اگست میں کابل پر قبضے کے بعد ان کے ملک کے اثاثوں کو غیر منجمد کرنے میں مدد کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مراسلے میں طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان سے بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے انخلا سے خبردار کیا۔

مزید پڑھیں: امریکا کیلئے پیغام ہے، ہماری حکومت تسلیم نہ کی تو دنیا کیلئے مسائل ہوں گے، ذبیح اللہ مجاہد

انہوں نے کہا کہ طالبان یہ درخواست اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کر رہے ہیں کہ ’مستقبل میں تعلقات کے دروازے کھلے رہیں، افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثے غیر منجمد کر دیے جائیں اور ہمارے بینکوں پر سے پابندیاں اٹھا لی جائیں‘۔

جو بائیڈن انتظامیہ نے 15 اگست کو طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے اور نئی حکومت پر دیگر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے فوراً بعد افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔

عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی تقریباً 1.2 ارب ڈالر کی امداد روک دی ہے جو انہیں رواں سال افغانستان کے لیے جاری کرنا تھی۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان، طالبان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی فہرست میں شامل کرلیا

واشنگٹن، افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔

نائب وزیر خزانہ ویلی ایڈیمو نے حال ہی میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا تھا کہ انہیں کوئی ایسی صورتحال نظر نہیں آئی جہاں واشنگٹن، طالبان کو افغان مرکزی بینک کے ذخائر تک رسائی کی اجازت دے۔

انہوں نے دلیل دی تھی کہ یہ ضروری ہے کہ ہم طالبان کے خلاف اپنی پابندیاں برقرار رکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ افغان عوام تک جائز انسانی امداد کے راستے تلاش کریں۔

تاہم طالبان نے اپنے مراسلے میں امریکی قانون سازوں کو باور کرایا کہ اقتصادی پابندیوں سے تجارت اور کاروبار ہی نہیں بلکہ لاکھوں مایوس افغانوں کی انسانی امداد بھی ’تباہ‘ ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کیلئے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد مستعفی

امیر خان متقی نے لکھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو افغان حکومت اور عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ خطے اور دنیا میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے اراکین اس سلسلے میں اچھی طرح سوچیں گے اور امریکی حکام پابندیوں اور غیر منصفانہ جانبدارانہ سلوک سے پیدا ہونے والے ہمارے لوگوں کے مسائل کو انصاف کی نظر سے دیکھیں گے۔

انہوں نے قانون سازوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ ’اس انسانی مسئلہ کو سطحی انداز میں نہ دیکھیں‘۔

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا تھا کہ برسوں کے تنازعات، اور طویل خشک سالی کے باعث اس موسم سرما میں ملک کے تقریباً 4 کروڑ افراد میں سے نصف سے زیادہ غذائی قلت کے باعث مر سکتے ہیں۔

خط میں امریکی کانگریس کو یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ کابل کے طالبان حکمران اس مرتبہ مختلف طریقے سے کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ’گڈ گورننس، سیکیورٹی اور شفافیت کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کو طالبان کی حکومت جلد یا بدیر تسلیم کرنی ہوگی، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے خطے یا دنیا کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور مثبت تعاون کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ افغان عالمی برادری کے تحفظات کو سمجھتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین کے اعتماد سازی کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے جائیں۔

انہوں نے لکھا کہ پابندیاں نہ اٹھانے سے افغانستان میں امریکی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں