کیا شادی ہالز، سینما دفاع کیلئے ہیں؟ چیف جسٹس کی عسکری زمین کے کمرشل استعمال پر سرزنش

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2021
کراچی رجسٹری میں درخواستوں پر سماعت ہوئی— فائل تصویر: فلکر اسکرین شاٹ
کراچی رجسٹری میں درخواستوں پر سماعت ہوئی— فائل تصویر: فلکر اسکرین شاٹ

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق مقدمے میں سیکریٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ آپ جائیں تمام چیفس کو بتادیں کہ دفاعی مقاصد کی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق معاملے کی سماعت کراچی رجسٹری میں ہوئی جہاں سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ کے پاس تحریری رپورٹ ہے؟۔

جس پر سیکریٹری دفاع نے تحریری رپورٹ جمع کرانے کے لیے عدالت عظمیٰ سے مہلت طلب کی۔

مزیدپڑھیں: حکومتِ پنجاب نے فوج کی اراضی شہری حکام کو الاٹ کرنے کی منظوری دے دی

دوران سماعت عدالت نے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو منگل کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سنیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو زمین دی گئی ہے اور آپ زمین پر کیا چلارہے، زمین اسٹریٹجک اور دفاع کے لیے دی گئی تھی آپ نے اس پر کمرشل سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ زمین پر شادی ہالز، سینما، ہاؤسنگ سوسائٹیز بنادیں کیا یہ دفاع کے لیے ہے؟ ایک کرنل اور میجر بادشاہ بنا ہوا ہے، وہ جو چاہتے ہیں ہو جاتا ہے۔

جس پر سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

جسٹس قاضی امین نے سیکریٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں، جو کیا ہے وہ سب ختم کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ تمام چیفس کو بتادیں کہ دفاعی مقاصد کی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تمام فوجی چھاؤنیوں میں جائیں اور بتائیں زمین صرف اسٹریٹجک مقاصد کے لیے استعمال ہوگی، مسرور بیس کیماڑی اور فیصل بیس سب کمرشل کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ سائن بورڈز ہٹانے کا کہا تو اس کے پیچھے بڑی بڑی بلڈنگز بنادی گئیں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہوگی۔

نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں گراکر رپورٹ پیش کرنے کا حکم

سپریم کورٹ میں نسلہ ٹاور مسماری کیس حکم دیا ہے کہ نسلہ ٹاور کو گراکر ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔

آج ہونے والی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہیں آپ؟

حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں نسلہ ٹاور کے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

—فائل فوٹو: آن لائن
—فائل فوٹو: آن لائن

چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہٹ جائیں آپ۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے اصرار کیا کہ نسلہ ٹاور سے متعلق کچھ سن لیں، میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

مزیدپڑھیں: کراچی کی ساری مشینری لے کر ابھی جائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں، چیف جسٹس کا حکم

جس پر چیف جسٹس نے انکار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’ہٹ جائیں آپ، ادھر سے ہٹ جائیں‘۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں کوئی سیاست نہیں چلے گی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ معاوضے کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا بات کررہے ہیں، آپ کو ابھی توہین عدالت کا نوٹس دے دیں گے۔

جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سنا نہیں مائی لارڈ نے کیا کہا ہے۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے نسلہ ٹاور کی عمارت ایک ہفتے میں گرا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

منسٹری آف ورکس نے تمام سوسائٹیز کے لے آؤٹ پلان غائب کردیے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پی ای سی ایچ سوسائٹی میں غیرقانونی الاٹمنٹ کیس میں سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری ورکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ منسٹری آف ورکس نے تمام سوسائٹیز کے لے آؤٹ پلان غائب کردیے، ان لے آؤٹ کو اب تبدیل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں ہرجگہ کو کمرشلائز کردیا، کمرشلائزیشن سے انڈسٹریز بند ہوگئیں، لوگوں نے انڈسٹریز ختم کرکے پیسہ زمینوں پر لگا دیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کا بیڑا غرق کردیا، دو ماہ میں کثیر المنزلہ عمارت کھڑی کر دی جاتی ہے۔

مزیدپڑھیں: ’سندھ میں ریلوے کی 5 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی زیرِ قبضہ ہے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہر کو رہنے کے لیے نہیں چھوڑا گیا۔ سندھی مسلم سوسائٹی کا حال تو یہ ہے کوئی چل نہیں سکتا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ پی ای سی ایچ سوسائٹی میں غیرقانونی الاٹمنٹ کیس میں عدالت نے واضح کیا کہ ماسٹر پلان اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ہی حکم جاری کیا جائے گا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے سماعت کے دوران غیر سنجیدگی پر صدر پی ای سی ایچ ایس کی سر زنش کی کہ آپ عدالت اور عدالت میں ہونے والی کارروائی کا مذاق اڑا رہے ہیں؟

عدالت نے پی ای سی ایچ ایس کا اصل ماسٹر اور لے آؤٹ پلان طلب کرلیا۔

علاوہ ازیں عدالت نے ہل پارک متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق درخواست پر سوسائٹی انتظامیہ کو نوٹس جاری کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں