سانحہ سیالکوٹ: مقتول منیجر کی میت لاہور سے سری لنکا پہنچا دی گئی

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2021
اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ محمد طاہر اشرفی بھی موجود تھے — فوٹو: جاوید حسین
اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ محمد طاہر اشرفی بھی موجود تھے — فوٹو: جاوید حسین

سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے تشدد سے قتل ہونے والے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کی میت کی باقیات لاہور ایئرپورٹ سے سری لنکا روانہ کردی گئی اور کولمبو میں حکومتی عہدیداروں نے وصول کیا۔

سانتھا کمارا کی میت سری لنکا پہنچا دی گئی جہاں حکومتی عہدیداروں مقتول فیکٹری مینجر کا تابوت وصول کیا اور اس موقع پر پھول نچھاور کیے گئے۔

جس کے بعد تابوت مقتول کے لواحقین کے حوالے کیا گیا۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

قبل ازیں میت کو ایمبولینس میں علامہ اقبال ایئرپورٹ لاہور لایا گیا جہاں پنجاب کے وزیر اقلیتی امور اعجاز عالم آگسٹین نے اسے وصول کیا مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ سری لنکن ایئرلائنز کے ذریعے روانہ کیا۔

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ محمد طاہر اشرفی، سری لنکا کے اعزازی کونسل جنرل یٰسین جوئیہ، محکمہ داخلہ پنجاب اور سری لنکن ہائی کمیشن کے نمائندے موجود تھے۔

مزید 7 مرکزی ملزمان گرفتار

— تصویر: ڈان نیوز
— تصویر: ڈان نیوز

دوسری جانب پنجاب پولیس نے 49 سالہ سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کو تشدد کر کے قتل کرنے کے کیس میں مزید 7 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا جس کے بعد مجموعی طور پر گرفتار افراد کی تعداد 131 ہوگئی۔

خیال رہے کہ فیکٹری ورکرز سمیت سیکڑوں افراد کے ایک مشتعل ہجوم نے 3 دسمبر کو پریانتھا کمارا پر توہین مذہب کا الزام عائد کر کے احتجاج کیا اور انہیں تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد لاش کو آگ لگادی تھی۔

پولیس نے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات میں 26 ملزمان کو گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کردیا۔

پولیس نے ملزمان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی تاکہ ملزمان سے مزید تفتیش کی جاسکے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج نتاشہ نسیم نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزمان کو 15روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے اور انہیں دوبارہ 21 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

گزشتہ تین روز میں پولیس متعدد افراد کو حراست میں لے چکی ہے، مشتبہ افراد میں وہ شخص بھی شامل ہے جو مبینہ طور پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا اور ساتھ ہی وہ لوگ بھی جنہوں نے تشدد کیا اور دوسروں کو اکسایا۔

پولیس نے ایک بیان میں بتایا کہ گرفتار کیے گئے 131 افراد میں سے 26 نے بہیمانہ قتل میں 'مرکزی کردار' ادا کیا۔

مزید پڑھیں: پریانتھا کمارا کی اہلیہ کی پاکستانی، سری لنکن رہنماؤں سے انصاف کی اپیل

بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مسلسل تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں اور سیکریٹری پروسیکیوشن کو کیس کی پروسیکیوشن کا کام سونپا گیا ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ 'ان ملزمان کو آج انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا'۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ ملزمان کی شناخت کے لیے کارروائی جاری ہے۔

گزشتہ روز سیالکوٹ کے 13 مرکزی ملزمان کو فوجداری عدالت کے جج ظریف احمد کے سامنے پیش کیا گیا، پولیس کی درخواست پر عدالت نے ایک روزہ راہداری ریمانڈ ریمانڈ دے دیا تھا۔

ان 13ملزمان میں فرحان ادریس، صبوربٹ، طلحہ، عبدالرحمٰن، عمران، تیمور، شعیب، راحیل، عثمان، شاہزیب احمد، ناصر،احتشام اور جنید شامل تھے۔

اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ سیالکوٹ: مزید 6 مرکزی ملزمان زیر حراست، دیگر کی تلاش میں چھاپے جاری

درخواست گزار نے کہا کہ مظاہرین نے ان کی موجودگی میں پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو آگ لگادی۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کی کمی کے باعث وہ مشتعل ہجوم کے آگے بے بس تھا۔

دلخراش واقعہ

واضح رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل، پاکستان کیلئے شرم ناک دن ہے، وزیراعظم

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملہ کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیےان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں