کووڈ 19 کے ایک فیصد مریضوں کے دماغ کو پہنچنے والے سنگین نقصانات کا انکشاف

06 دسمبر 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کی وبا کی ابتدا سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ محض پھیپھڑوں تک محدود بیماری نہیں، بلکہ دل، گردوں اور جگر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

کچھ متاثر افراد کو دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند، سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

محققین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنا زیادہ تھی۔

بیشتر مریضوں کو پہلے سے مکتلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

محققین نے بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔

تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر محققین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

ابھی مرکزی اعصابی نظام میں وائرل انفیکشن براہ راست کردار ادا کرتا ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ واضح نہیں۔

مدافعتی نظام کا بہت زیادہ متحرک ہونا، پانی کی کمی اور آکسیجن کی سطح میں کمی بھی اس حوالے سے ممکنہ طور پر اہم عناصر ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس معاملے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکے۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ریڈیولوجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ اجلاس کے دوران اس کی سمری پیش کی گئی۔

اس سے قبل ستمبر 2021 میں نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں ایسے بائیو مارکر لیول بڑھ جاتے ہیں جو عمر بڑھنے سے دماغی تنزلی کا عندیہ دیتے ہیں۔

اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے بائیو مارکرز بشمول نیورونل، گیلال اور دیگر کی سطح میں اضافے کو شناخت کیا۔

نیورونل، گیلال اور دیگر بائیومارکرز کی سطح میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور ان سے بیماری کی سنگین شدت کی پیشگوئی بھی کی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر اس کے باوجود عمر کے ساتھ آنے والے تنزلی کی سطح کو الزائمر کے مریضوں سے زیادہ دیکھا گیا۔

تحقیق میں کووڈ کے باعث زیرعلاج رہنے والے 251 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ڈیمینشیا یا دماغی افعال متاثر ہونے کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔

ان مریضوں کی اوسط عمر 71 سال تھی اور 31 فیصد کو وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی، 25 فیصد کا انتقال ہوگیا تھا اور 53 فیصد بیماری کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔

161 افراد میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19 سے محفوظ رہے تھے اور ان کو کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ان میں سے 54 افراد دماغی طور پر مکمل صحت مند تھے، جبکہ 54 کے دماغی افعال جزوی طور پر متاثر ہوچکے تھے اور 53 الزائمر امراض کے شکار تھے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے 48 فیصد مریضوں کو ذہنی و اعصابی علامات کا سامنا ہوا، 46 فیصد کو دماغی انجری کا بھی سامنا ہوا۔

محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کو ذہنی تنزلی کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جو معمر ہوں اور ان کو کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا ہوا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے ایسے مریض جن میں آکسیجن کی سطح کم ہوگئی اور وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں دماغی تنزلی کے بائیو مارکرز کی سطح بڑھ گئی۔

اسی طرح جن مریضوں کا انتقال پسپتال میں ہوگیا تھا ان میں ان بائیو مارکرز کی سطح بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ دریافت ہوئی۔

تحقیق کے نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ کووڈ سے دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور medRxiv پر شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں