سینیٹ کمیٹی کا ایف بی آر کو جائیداد کی نئی قیمتیں واپس لینے کا حکم

07 دسمبر 2021
سینیٹر نے کہا کہ فیصلہ سازی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے ہونی چاہیے—تصویر: سینیٹ ٹوئٹر
سینیٹر نے کہا کہ فیصلہ سازی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے ہونی چاہیے—تصویر: سینیٹ ٹوئٹر

اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ملک کے 40 شہروں میں غیر منقولہ جائیداد کی قیمتوں میں 100 سے 700 فیصد اضافہ واپس لینے کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹرز کے مشاہدوں اور ریئل اسٹیٹ اسٹیک ہولڈرز کے احتجاج کی بنیاد پر جے یو آئی کے سینیٹر طلحہ محمود نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے ایف بی آر کو 15 روز میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قیمتوں کا نظرِ ثانی شدہ میزان پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر اقدامات اٹھانا ریونیو حکام کا نامناسب عمل ہے اور اس طرح کی پالیسیز ایف بی آر اور کاروبار دونوں کے لیے بہتر نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جائیداد کی قیمتوں کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں ایف بی آر کرے گا

ان کا مزید کہنا تھا کہ کاروباری لین دین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے چنانچہ اس لیے ایک طریقہ کار اور ٹائم فریم بھی ہونا چاہیے جس کے تحت نئے ایس آر او نافذ ہونے سے قبل کیے گئے معاہدے غیر متاثر رہیں۔

سینیٹر نے کہا کہ فیصلہ سازی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے ہونی چاہیے لیکن اگر حکومتی اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اعتماد کا فقدان ہوگا تو معاشی بہتری اور ریونیو بڑھنے کی توقع نہیں ہے۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ نئے میکانزم کے لیے مشاورتی عمل کے دوران سابقہ قواعد اور انتظامات نافذ رہنے چاہئیں تا کہ کاروبار معمول کے مطابق چلتے رہیں۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ مستقبل کے تمام ضابطوں کے لیے ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ صنعت کو تعمیل اور کاروبار ایڈجسٹ کرنے کے لیے مناسب وقت فراہم کرے۔

مزید پڑھیں:کراچی سمیت 20 شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ املاک کی قیمتوں پر نظرِ ثانی کرنے کا مقصد مارکیٹ قیمتوں کی بنیاد پر غیر منقولہ جائیدادوں پر بتدریج ٹیکس عائد کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند برس قبل تک جائیدادوں کی درست قیمتوں کا کوئی مناسب نظام نہیں تھا اور صوبے اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے یہ ذمہ داری ایف بی آر کو دے دی گئی۔

ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ جائیدادوں کی قیمتوں کا تعین مسلم لیگ (ن) کے دور میں پہلی مرتبہ ہوا تھا اور ان قیمتوں کی بنیاد پر ٹیکس استثنیٰ اسکیم بھی متعارف کرائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے دیے گئے حالات میں پراپرٹی کی بہترین ممکنہ قیمتوں کا تعین کیا ہے لیکن پھر بھی امکان موجود ہے کہ کچھ علاقوں کی متعینہ قیمتیں زیادہ یا کم ہو سکتی ہے اس لیے ایف بی آر ان کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایف بی آر نے بے نامی جائیداد رکھنے والوں کو سخت سزائیں تیار کرلی

سینیٹر کامل علی آغا نے تجویز پیش کی کہ جائیداد کی منصفانہ قیمت اور اس کے نتیجے میں ٹیکس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے قیمتوں کا کوئی فارمولا اور آزادانہ جائزہ ہونا چاہیے۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ٹیکس مشینری پر تنقید کے بجائے آگے کا راستہ تلاش کیا جائے، ایف بی آر پی پی پی کے دور سے جائیدادوں کی قیمتیں طے کر رہا ہے اور اس موضوع پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ کمیٹی پراپرٹی بزنس تباہ نہیں کرنا چاہتی لیکن پراپرٹی مارکیٹ میں کالے دھن کی سرمایہ کاری کی بھی اجازت نہیں دے سکتی۔

اجلاس میں پراپرٹی ڈیلرز اور راولپنڈی، اسلام آباد کے ایوانِ صنعت و تجارت کے نمائندوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے قیمتوں کا نیا طریقہ کار اچانک اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر نافذ کردیا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کا لین دین بالکل رک گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے سیل پرچیز کنٹریکٹ پر دستخط کردیے لیکن ٹرانسفر کے وقت کہ ان کے ٹیکس کی شرح میں 100 سے 700 فیصد اضافہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں