سینیٹ کمیٹی کی اسکول ٹرانسپورٹ کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرنے کی تجویز

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2021
سینیٹر سیمی ایزدی کی سربراہی میں ہونے والا اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس— تصویر:اے پی پی
سینیٹر سیمی ایزدی کی سربراہی میں ہونے والا اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس— تصویر:اے پی پی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے تعلیمی اداروں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو الیکٹرک وہیکل (ای وی) یا بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں تبدیل کرنے کی سفارش کردی۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ایک بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا کہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کُل فضائی آلودگی کا 43 فیصد ہوتی ہے۔

سینیٹر سیمی ایزدی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اسموگ کی سنگین صورتحال، ہوا کے معیار کو جانچنے کے طریقہ کار اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بات چیت ہوئی۔

کمیٹی کو ماحولیات کے اعتبار سے ملک کی مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔

سیکریٹری ماحولیاتی تبدیلی سکندر قیوم اور ڈائریکٹر جنرل ای پی اے فرزانہ الطاف شاہ نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ فضائی آلودگی پھیلانے میں سب سے بڑا ہاتھ صنعتی یونٹ، گاڑیوں اور اینٹوں کے بھٹوں کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس اصلاحات کی بدولت پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے نئے دور کا آغاز

فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں اینٹوں کے 63 بھٹوں میں سے 20 میں آلودگی کم کرنے والی ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے۔

کمٹی کو بتایا گیا کہ 43 فیصد فضائی آلودگی کی وجہ گاڑیاں ہیں اور صرف اسلام آباد ایکسپریس وے پر ایک دن میں 4 لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں۔

ان مسائل نے ہی حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کے لیے متحرک کیا ہے، ان اقدامات میں 30 فیصد ٹرانسپورٹ کو ماحول دوست الیکٹرک وہیکل سے تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔

کمیٹی نے الیکٹرک وہیکل پر منتقلی کے حوالے سے سازگار ماحول بنانے کے لیے صارفین کو مراعات فراہم کرنے پر زور دیا اور سفارش کی کہ تعلیمی اداروں کی گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کردیا جائے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کمیٹی کو بتایا کہ کراچی بدترین آلودگی کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آلودہ مادوں کو ری سائیکل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کے لیے بھی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے پاکستان کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس ضمن میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے جس کا اعتراف عالمی برادری نے بھی کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے کئی منصوبے شروع کردیے گئے ہیں جن میں بلین ٹری، 10 سالوں میں ڈیمز کی تعمیر اور لاہور میں اربن فارسٹ کا منصوبہ شامل ہے۔

یہ منصوبے ملک کو درپیش ماحولیاتی مسائل کے حل میں معاون ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 33 لاکھ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے پہلی مکمل برقی گاڑی متعارف کرا دی

انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اپنے 44 فیصد فنڈز ماحول دوست منصوبوں پر خرچ کرتا ہے۔

سینیٹر عابدہ محمد عظیم نے کہا کہ بلوچستان میں گیس کی عدم دستیابی کے باعث مقامی افراد صنوبر کے درخت کی لکڑی جلانے پر مجبور ہیں۔

سینیٹر کیشو بائی نے ملک کے مختلف حصوں اور خصوصاً لاہور میں اسموگ کے مسئلے کو اٹھایا۔

سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند نے کہا کہ ماحولیات کا مسئلہ اب پورے ملک کا مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار اور حقائق کی بنیاد پر پالیسی سازی پر زور دیا۔

کمیٹی نے افرادی قوت کی کمی کے باوجود ای پی اے کی جانب سے کیے گئے کاموں کی تعریف کی اور سفارش کی کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔

اس موقع پر کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر سیمی ایزدی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شہریوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا ایک ذمہ داری ہے۔


یہ خبر 10 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں