ماہر علی
ماہر علی

پاکستانی تاریخ کے غیر حقیقی واقعات میں 50 سال قبل کا بھی ایک واقعہ شامل ہے۔ اس دن قوم سے ایک ایسے شخص نے خطاب کیا تھا جو ان کے سامنے موجود ہی نہیں تھا۔

ظاہر ہے کہ وہ شخص کہیں الگ تھلگ بیٹھا تھا۔ بہرحال جنرل یحییٰ خان کی قوم سے الوداعی تقریر کو ٹیلی ویژن پر کیوں نشر نہیں کیا گیا اس کی وجوہات عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان دنوں جنرل یحییٰ اور کچھ دیگر اہم جنرلوں نے خالص سرور بخش چیزوں کا استعمال بڑھا دیا تھا۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ اس وقت وہ ٹی وی پر نہ آسکتے ہوں۔

صرف قیادت ہی مدہوش نہیں تھی بلکہ مشرقی پاکستان کے محاذ پر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی خبر آنے کے بعد تو پورا ملک ہی اپنے حواس کھو چکا تھا۔ اگرچہ اس وقت اس سے بہتر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تھا تاہم مغربی پاکستان میں رہنے والوں کے لیے پھر بھی یہ ایک حیران کن خبر تھی کیونکہ عوام کو مہینوں سے حکومت اور میڈیا کی جانب سے پیش کی جانے والی غلط خبروں کی بنیاد پر فتح کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔

مزید پڑھیے: سقوطِ ڈھاکہ: تلخ ماضی کو بھلا کر روشن مستقبل کی بنیاد کیسے ڈالی جائے؟

بلآخر جنرل یحییٰ کو مستعفی ہوجانے پر تیار کرلیا گیا۔ شاید وہ بغیر کسی اعلان کے مستعفی ہونے کو ترجیح دیتے لیکن اقتدار کی تبدیلی کی رسم کے مطابق قوم سے خطاب کو ضروری سمجھا گیا۔

یہاں پی ٹی وی ایک مخمصے میں پڑ گیا کیونکہ پی ٹی وی تو صدارتی تقاریر کو ٹیلی کاسٹ کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب حکام اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس وقت جنرل یحییٰ دیکھے جانے نہیں بلکہ صرف سنے جانے کے لیے موزوں ہیں تو فیصلہ کیا گیا کہ آواز کے ساتھ ان کی غیر متحرک تصویر چلانے یا شیڈول تبدیل کرنے کے بجائے ایک ٹرانزسٹر دکھایا جائے گا۔ اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو اس ٹرانزسٹر کو بہت فنکارانہ انداز میں مختلف زاویوں سے فلمایا گیا تھا۔

یحییٰ خان کی رخصت نے اس تمام مضحکہ خیزی پر پردہ ڈال دیا تھا۔ جنرل یحییٰ کے واحد سویلین متبادل کو نیویارک سے واپس بلایا گیا جہاں انہوں نے اقوامِ متحدہ کو اپنی حرکات سے محظوظ کر رکھا تھا۔ واپسی پر وہ فلوریڈا سے رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر اور تہران سے شاہ ایران کی حمایت بھی سمیٹتے ہوئے آئے۔

نیویارک میں سیکیورٹی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’میرا ملک میرا منتظر ہے‘۔ انہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ ’میں آپ کے سامنے مغربی پاکستان کے عوام کے مستند رہنما کی حیثیت سے بات کررہا ہوں جنہوں نے مجھے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کو ملنے والی جیت سے بھی زیادہ متاثر کن جیت سے ہمکنار کیا ہے‘۔

یہ بالکل غلط بات تھی کیونکہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے تقریباً تمام نشستیں جیت لی تھیں۔ دوسری جانب مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے سندھ اور پنجاب میں تو متاثر کن کارکردگی دکھائی لیکن سرحد میں وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اب جہاں تک رہی بات بلوچستان کی تو وہاں اسے عملی طور پر نظر انداز کردیا گیا۔

اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی مغربی حصے میں کامیاب ترین جماعت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ماندہ پاکستان میں جمہوری مینڈیٹ کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ کئی لوگ تو کہتے ہیں کہ شیخ مجیب سے معاہدہ نہ کرنے کے پیچھے بھی یہی مقصد تھا۔ اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو یحییٰ حکومت کے پاس اسمبلی کا اجلاس مؤخر کرنے کا کوئی جواز نہ رہتا۔ اسی طرح اگر اس وقت فوج بھی جمہوری نظام کو چلنے دینے کا فیصلہ کرلیتی تو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے اس کے خلاف جانا بہت مشکل ہوتا۔

طرفین ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگے ہوئے تھے جس کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلا۔ اسٹینلے ولپرٹ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’مجیب کی قید کے زمانے میں ان کی مجیب سے ملاقات ہوئی، اور یہ وہ وقت تھا جب بھٹو طاقت حاصل کرچکے تھے لیکن اس وقت بھی بھٹو شیخ مجیب کی قیادت میں ریاستوں کے بننے والے کسی اتحاد کے امکانات کی تحقیقات کروارہے تھے‘۔

شیخ مجیب کو مارچ میں ان کی نظربندی کے بعد سے ہی تمام واقعات کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس خیال کی کھل کر مخالفت نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ وہ بھارتی قبضے کے خلاف ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے لوگوں سے مشورہ کریں گے۔

مزید پڑھیے: سقوطِ ڈھاکہ اور ہینری کسنجر کا جھوٹا سچ

یہ ممکن نہیں کہ دسمبر کے آخر تک بھٹو کو اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ اب دوبارہ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ جب شیخ مجیب کو ہیتھرو جانے کی اجازت دی گئی تب یہ خیال ابھرا ہو؟ ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد شیخ مجیب دہلی سے ہوتے ہوئے ڈھاکہ پہنچے اور ان دونوں دارالحکومتوں میں ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔

اب ایک بڑا سوال یہ تھا کہ ماندہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ جہاں تک مجھے یاد ہے بحیثیت صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ خارجہ، وزیرِ خزانہ اور وزیرِ داخلہ، بھٹو کی پہلی تقریر کو ٹی وی پر نشر نہیں کیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے میں بستر میں لیٹے ہوئے وہ تقریر سن رہا تھا، اس وقت تک میں عموماً سوجایا کرتا تھا۔ تقریر کا وہ حصہ میری یادداشت میں پیوست ہوگیا جس میں ’چھوٹے چھوٹے‘ ٹکڑے جمع کرنے کی بات کی گئی تھی۔

تاہم اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں رہا۔ بنیاد پرستی سے لے کر رجعت پسندی تک بھٹو تضادات کا مجموعہ تھے۔ کچھ عرصے کے لیے ان کے پاس تقریباً مکمل اختیارات تھے۔ وہ جس نئے پاکستان کی بات کرتے تھے وہ ان کی گرفت میں تھا لیکن انہوں نے سب کچھ گنوا دیا۔ 1971ء میں جو کچھ ممکن نظر آرہا تھا 1977ء میں ان سب چیزوں پر تاریکی چھا گئی۔


یہ مضمون 15 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں