فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے قطر کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑا؟

21 دسمبر 2021
قطر میں فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے لیے بنائے گئے اسٹیڈیمز کے ماڈلز—رائٹرز
قطر میں فیفا ورلڈ کپ 2022ء کے لیے بنائے گئے اسٹیڈیمز کے ماڈلز—رائٹرز

قطر، 30 لاکھ سے بھی کم نفوس پر مشتمل ریتیلی زمین پر واقع اس چھوٹے ملک کا زیادہ تر رقبہ خشک صحرا اور طویل حیران کن ساحلی پٹی کا امتزاج ہے۔ اس کے پُرشکوہ دارالحکومت دوحہ کو عمدہ بلند و بالا عمارتیں اور انسانی ساختہ جزیرے ایک خاص حیثیت بخشتے ہیں۔

دنیا کی کامیاب ترین ایئر لائنوں میں شمار ہونے والی قطر ایئرویز کا تعلق اسی ملک ہے، پھر دنیا میں وسیع صحافتی نیٹ ورکس کا حامل الجزیرہ میڈیا گروپ بھی یہیں واقع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدن کا اعزاز بھی اسی ملک کے پاس ہے۔ اور کچھ ماہ میں یہ ملک کھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے میلوں میں سے ایک فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔

کھیل کے میدانوں میں کامیابیاں

کھیلوں کی دنیا میں قطر کبھی بڑا نام نہیں رہا ہے۔ اس ملک کی قومی فٹبال ٹیم نے 1992ء اور 2004ء میں گلف کپ جیتا تھا، مگر اس کے بعد پھر کوئی فتح سامنے نہیں آئی۔

معاملات 2006ء میں بدلنا شروع ہوئے جب قطر نے ایشین گیمز کی کامیاب میزبانی کی، اور پھر کھیل کے شعبے میں خود کو بے مثال بناتا چلا گیا۔ قومی ایئرلائن نے یورپ کی مایہ ناز ٹیموں ایف سی بارسلونا اور اے ایس روما کو اسپانسر کیا۔ قطری تاجر نے قطر اسپورٹس انیوسٹمنٹس نامی ایک تجارتی منصوبہ متعارف کروایا جس نے فرینچ کلب پی ایس جی (PSG) کو خریدا اور اسے یورپ کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بنا دیا۔ ہسپانوی لیجنڈ Xavi نے اپنے منیجر Pep Guardiola کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قطر اسٹار لیگ السد (Al Sadd) کی نمائندگی کی اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کے منیجر بنے۔

اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کون سا ایک موقع تھا جس نے قطر میں کھیلوں کے شعبے کو ایک نئی جہت بخشی اور اسے عالمی سطح پر صفِ اوّل میں لاکھڑا کیا تو وہ موقع 2010ء میں 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا ملنا قرار دیا جاسکتا ہے۔

قطر فٹبال ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والا اب تک کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یاد رہے کہ قطر فٹبال کا عالمی میلہ سجانے والا عرب دنیا کا پہلا اور ایشیا کا دوسرا ملک بھی بن گیا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ٹورنامنٹ کی سطح پر کبھی فٹبال نہ کھیلنے کے باوجود قطر کی ٹیم ٹورنامنٹ کے لیے براہِ راست کوالیفائی کرچکی ہے۔

اور پھر بارسلونا اور پی ایس جی میں ہونے والی سرمایہ کاری کو بھی تو نہیں بھولنا چاہیے۔ قطری لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے کھیلنے سے مقامی کھلاڑیوں کو ایکسپوژر ملا ہوگا اور یقیناً 2019ء میں قطر تاریخ میں پہلی بار ایشین کپ جیت کر 2022ء کے ورلڈ کپ تک اپنی براہِ راست رسائی کو درست ثابت کرنے میں کامیاب بھی رہا۔ بعدازاں قطر کو 2019ء اور 2020ء کے فیفا کلب ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق مل گئے، ان ٹورنامنٹس میں گہری دلچسپی لی گئی کیونکہ ان کے ذریعے ہی قطر میں میگا ایونٹ کے لیے جاری تیاریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔

قطر نے صرف فٹبال میں ہی اتنے کم وقت میں عروج حاصل نہیں کیا۔ 2019ء میں قطر نے آئی اے اے ایف ورلڈ ایتھلیٹ چیمپئن شپ کی میزبانی بھی کی۔ یہ وہی ایونٹ ہے جس میں ارشد ندیم کی عالمی اسٹیج پر شاندار آمد ہوئی تھی۔ ٹوکیو اولمپک 2020ء میں قطر کے ویٹ لفٹر فارس البخ (Fares El-bakh) نے 96 کلو گرام کی کیٹیگری میں قطر کو تاریخ کا پہلا اولمپکس طلائی تمغہ جتوایا۔

ان کے بعد لندن اولمپکس 2012ء اور ریو اولمپکس 2016ء میں ہائی جمپ میں چاندی کے تمغے حاصل کرنے والے معتز عیسی برشیم (Mutaz Essa Barshim) 2020ء میں طلائی تمغہ جیت کر بیک وقت اولمپکس اور ورلڈ چیمپئن بنانے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ 2019ء میں وہ اپنے ملک میں منعقدہ ورلڈ چیمپئن شپ مقابلوں کے دوران بھی طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

عبدالرحمٰن سامبا (Abderrahman Samba) 2018ء میں 400 میٹر کی رکاوٹی دوڑ میں کم ترین وقت میں دوڑ مکمل کرنے والے دنیا کے دوسرے شخص بنے۔ بعدازاں انہوں نے ورلڈ چیمپئن شپ 2019ء میں کانسی کا تمغہ بھی حاصل کیا۔

اور جب فیفا ورلڈ کپ میں تھوڑا ہی عرصہ رہ گیا تھا تب قطر نے پہلی بار فارمولہ ون ریس کی میزبانی کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اگرچہ کھیلوں کے شعبے میں قطر کی تمام کامیابیوں کو براہِ راست ورلڈ کپ سے نہیں جوڑا جاسکتا البتہ اس یکایک عروج کو محض اتفاق کہنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

2020ء تک کا کٹھن سفر

قطری وفد کو جس پہلی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ الزام تھا کہ انہیں ایک غیر منصفانہ ووٹنگ کے تحت ورلڈ کپ میزبانی کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ قطر پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے دیگر ملکوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھاری رشوتیں دی تھیں۔ بظاہر فیفا کے ایک سینئر نائب صدر بھی قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی دینے کے عوض ذاتی طور پر مالی فوائد حاصل کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ قطری وفد نے تمام الزامات کو رد کیا اور فیفا نے معاملے کی تفتیش کے بعد قطر کے مؤقف کو درست قرار دے دیا۔

پڑھیے: فٹبال ورلڈکپ کی تاریخ، میدان میں کب کیا ہوا؟

کھیلوں کے عظیم الشان میلوں میں سے ایک تصور کیے جانے والے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق ملنے کے بعد قطر نے بھاری وسائل خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ اعلان کیا کہ ٹورنامنٹ کے دوران 12 اسٹیڈیمز کو استعمال کیا جائے گا۔ 12 میں سے 9 میدانوں کو تعمیر جبکہ 3 میدانوں کو بہتر کیا جانا تھا۔ مگر چند سال بعد انہوں نے اپنی خواہشات کا ایک بار پھر جائزہ لیا اور میدانوں کی تعداد 8 تک محدود کردی۔

لیکن یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آٹھوں میدان فن پاروں سے کم نہیں۔ ان میں عرب ثقافت کو بے مثال فنِ تعمیرات میں سمویا گیا ہے، بلاشبہ یہ اسٹیڈیم ماسٹر کلاس انجینئرنگ کا نمونہ ہیں۔ تمام میدانوں کو عربی صحرا کی تپش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خاص کولنگ مکینزم سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا اسٹیڈیم بھی تیار کیا گیا ہے جس کے پورے ڈھانچے کو حصوں میں تقسیم اور جوڑا جاسکتا ہے لہٰذا اس اسٹیڈیم کے حصوں اور دیگر میدانوں کے بہت سارے حصوں کو ترقی پذیر ممالک عطیہ کیا جائے گا تاکہ ان کے ہاں کھیلوں کا انفرااسٹرکچر بہتر ہوسکے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پس پردہ ہونے والا کام انتہائی قابلِ تعریف ہے۔

مگر ان شاہانہ تیاریوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بلاشبہ حکومت نے اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بہت سارا پیسہ بہایا ہے مگر اس پر ایک اور بھی لاگت آئی ہے۔ گارجیئن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان شاندار منصوبوں پر کام کرنے والے اکثر مزدور دراصل وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو وہاں ناقص حالات میں قیام پذیر تھے۔

ایک قانونی ادارے کی جانب سے کرائے گئے سروے میں سرکاری حکام کے مزدوروں سے سلوک کے بارے میں تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا جس کے بعد متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا۔

گارجیئن میں شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چند مزدوروں کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی۔ ان حالات میں قطری حکومت قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی اور خطا کار ٹھیکیداروں کے نہ صرف ٹینڈرز کو منسوخ کردیا گیا بلکہ انہیں سزا کی دھمکی بھی دی۔ اور 2015ء میں تنخواہوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے حکومت کی زیرِ نگرانی کام کرنے والا الیکٹرانک نظام متعارف کروایا۔

پڑھیے: ورلڈ کپ کی میزبانی، قطر کا سابق سی آئی اے افسر کے ذریعے فیفا حکام کی جاسوسی کا انکشاف

اگلا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب بات ورلڈ کپ کے روایتی مہینوں میں پلیئنگ کنڈیشنز پر آئی۔ جون اور جولائی کے دوران قطر میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، اسٹیڈیمز میں کولنگ مکینزم کی تنصیب کے باوجود اتنی گرمی میں کھیلنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔

تفیصلی مباحثوں کے بعد فیفا نے نومبر اور دسمبر میں ٹورنامنٹ کروانے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ پہلا ایسا فیفا ورلڈ کپ ہوگا جو تمام یورپی لیگوں کے شیڈول کو متاثر کرے گا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسمِ سرما میں کھیلا جانے والا یہ پہلا فیفا ورلڈ کپ ہوگا، اس بات کا اندازہ آپ ٹورنامنٹ کی باضابطہ علامت دیکھ کر لگا سکتے ہیں جس میں شال واضح طور پر نظر آجاتی ہے۔

کوالیفکیشن

ٹورنامنٹ کے کوالیفائنگ مرحلے میں روایتی طریقہ کار اپنایا گیا۔ بطور میزبان قطر ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرچکا ہے اور پہلی بار یہ ٹیم فائنلز کھیلتی ہوئے نظر آئے گی۔

یورپی کوالیفائرز کی بات کی جائے تو ان میں دفاعی چیمپئن فرانس کامیاب ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ 2014ء کا فاتح جرمنی، 2010ء کا فاتح اسپین اور 2018ء میں فاننل کھیلنے والا کروشیا اپنے اپنے گروپ میں ٹاپ پر ہونے کے ناطے اپنی ٹکٹیں بک کروا چکے ہیں۔ بیلجیم کی عصرِ حاضر کی بہترین ٹیم کے پاس اپنے وطن ٹرافی لانے کا یہ شاید آخری موقع ہے۔ جن دیگر یورپی ملکوں نے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے ان میں ڈینمارک، انگلینڈ، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ اور سربیا شامل ہیں۔

اگر جنوبی امریکا کی بات کی جائے تو وہاں سے برازیل نے ہر بار کی طرح اس بار بھی فیفا ورلڈ کپ تک رسائی کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ریکارڈ ساتویں بار Ballon d’Or victory ایوارڈ جیتنے والے لیونل میسی کی زیرِ قیادت ارجنٹینا کی ٹیم بھی قطر پہنچے گی۔

افریقی، ایشیائی اور شمال امریکی کوالیفائنگ گروپس کے مقابلے جاری ہیں اور جلد ہی یورپ اور جنوبی امریکا سے مزید ٹیمیں بھی کوالیفائی کرلیں گی۔ مگر کوالیفائنگ مرحلے میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابق دو یورپی چیمپئن اٹلی اور پرتگال ایک ہی پلے آف گروپ میں آگئے ہیں لہٰذا ان میں سے کوئی ایک ہی ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آیا اس ورلڈ کپ میں کرسٹیانو رونالڈو ایکشن میں نظر آئیں گے یا نہیں؟


یہ مضمون 12 دسمبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں