ورلڈ کپ کی میزبانی، قطر کا سابق سی آئی اے افسر کے ذریعے فیفا حکام کی جاسوسی کا انکشاف

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2021
2 دسمبر 2010 کو لی گئی اس تصویر میں 2022 ورلڈ کی بولی لگانے والی کمیٹی کے چیئرمین محمد بن حمد آل ثانی اور امیر قطر خلیفہ آل ثانی ورلڈ کپ ٹرافی تھامے ہوئے ہیں— فائل فوٹو: اے پی
2 دسمبر 2010 کو لی گئی اس تصویر میں 2022 ورلڈ کی بولی لگانے والی کمیٹی کے چیئرمین محمد بن حمد آل ثانی اور امیر قطر خلیفہ آل ثانی ورلڈ کپ ٹرافی تھامے ہوئے ہیں— فائل فوٹو: اے پی

قطر کی جانب سے 2022 ورلڈ کپ کی میزبانی کے حصول کے لیے سابق سی آئی اے افسر کے ذریعے کئی برسوں تک فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا کے اعلیٰ حکام کی جاسوسی کرائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

امریکی خبر ایجنسی اے پی کی تحقیق کے مطابق یہ اس رجحان کا حصہ ہے جس میں امریکی انٹیلی جنس افسران کے سابق افسران انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے قابل اعتراض ریکارڈ رکھنے والی بیرونی حکومتوں کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ سی آئی اے افسر نے بھی اسی رجحان کے تحت قطر کے لیے خدمات انجام دیں۔

مزید پڑھیں: فیفا: قطر ورلڈ کپ گرمیوں میں نہیں ہو گا

فٹ بال ورلڈ کپ دنیا کا مقبول ترین کھیل کا ٹورنامنٹ ہے اور یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک قطر کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ عالمی کھیلوں کا حصہ بنے۔

اے پی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ قطر نے نجی کنٹریکٹر بننے والے سی آئی اے کے سابق افسر کیون چالکر کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ میزبانی کے حقوق کے حصول میں ان کی مدد کرسکیں۔

ان کو یہ ذمے داری سونپی گئی تھی کہ وہ بولی لگانے والے حریفوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ فیفا کے ان اہم عہدیداروں کی جاسوسی بھی کریں جو 2010 میں ورلڈ کپ میزبان کا انتخاب کرنے والے تھے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق وہ کئی برسوں تک قطر میں کام کرتے رہے تاکہ وہ قطر میں فٹ بال کے ناقدین پر نظر رکھ سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کے پہلے ایئرکنڈیشنڈ اسٹیڈیم کا افتتاح

اے پی کی اس تحقیقات میں چالکر کے سابق ساتھیوں کے ساتھ انٹرویوز کے ساتھ ساتھ معاہدوں، رسیدوں، ای میلز اور کاروباری دستاویزات کے جائزے پر مبنی ہے۔

فیس بک کے ذریعے پھنسانا

ریکارڈ کے جائزے سے پتہ چلا کہ نگرانی کے کام کے تحت حریف ملک کی بولی پر نظر رکھنے کے لیے کسی کو فوٹو جرنلسٹ کا کام دیا گیا تاکہ وہ حریفوں کی بولیوں پر نظر رکھ سکے جبکہ فیس بک کے ذریعے بھی لوگوں کو پھنسایا گیا جس میں کسی پرکشش لڑکی کی آن لائن تصویر لگا کر ٹارگٹ کے قریب جانے کی کوشش کی جاتی تھی۔

چالکر اور قطر کے لیے کام کرنے والوں نے 2010 کے اس ووٹنگ کے عمل سے پہلے فیفا کے کم از کم ایک اعلیٰ عہدیدار کے سیل فون کال لاگز بھی کسی طرح سے ہتھیا لیے تھے جس سے انہیں اپنے کام میں مزید مدد ملی۔

چالکر نے قطر سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ملک کو غیر ملکی کارکنوں کی بڑی آبادی پر غلبہ برقرار رکھنے میں مدد بھی دیں گے کیونکہ 28لاکھ آبادی کے حامل قطر میں مقامی شہریت کے حامل افراد کی تعداد صرف 3لاکھ ہے اور ٹورنامنٹ کے انعقاد کے سلسلے میں اسٹیڈیم اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ان کا انحصار غیرملکی مزدوروں پر ہے۔

قطری حکومت اور فیفا کے عہدیداروں سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: قطر، روس سے ورلڈ کپ میزبانی چھننے کا خطرہ

دوحا دفتر کھولنے کے ساتھ ساتھ قطری حکومت کے ای میل اکاؤنٹ کے حامل چالکر نے اپنے نمائندے کے ذریعے فراہم کردہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اور ان کی کمپنیاں کبھی بھی غیر قانونی نگرانی میں ملوث نہیں رہیں۔

چالکر نے انٹرویو کی درخواست کو مسترد کردیا اور قطری حکومت کے لیے کام کے بارے میں تفصیلی سوالات کے جوابات دینے سے انکار کر دیا، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اے پی نے جن دستاویزات کا جائزہ لیا ان میں سے متعدد جعلی تھیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی نے چالکر کی کمپنیوں کی سینکڑوں صفحات پر مشتمل دستاویزات کا جائزہ لیا جس میں 2013 کے منصوبے کی تجدید شدہ رپورٹ بھی شامل ہے جس میں مختلف فٹ بال حکام کے ساتھ چالکر کے عملے کی میٹنگ کی بھی کئی تصاویر تھیں۔

دستاویزات کی صداقت جاننے کے لیے مختلف اہم اقدامات کیے گئے لیکن اس کے برعکس چاکر نے اے پی کو ان دستاویزات کو جعلی ثابت کرنے کے اپنے مؤقف کی تائید کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

سی آئی اے کے سابق افسر مشکلات سے دوچار

قطر کے لیے چالکر اور اس کی کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے کام کی تفصیلات جاننے کے لیے اے پی نے جن دستاویزات کا جائزہ لیا ان میں ایک دستاویز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے والی کمپنی ایلیٹ بروڈی کی جانب سے دائر کیا گیا مقدمہ بھی شامل ہے کیونکہ اس میں بھی سابق سی آئی اے افسر اور ان کے ساتھیوں کے کاموں کا ذکر ہے۔

بروڈی نے چالکر کے خلاف مقدمہ کیا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے قطر کی ہدایت پر فیفا عہدیداروں کی جاسوسی کے لیے وسیع پیمانے پر ہیکنگ اور جاسوسی کی مہم چلائی۔

یہ بھی پڑھیں: 'قطر میں فٹبال ورلڈ کپ نہیں ہو گا'

بروڈی کے وکلا نے اس حوالے سے کسی تبصرے سے گریز کیا لیکن چالکر کی قانونی ٹیم کا اصرار ہے کہ یہ مقدمہ بے بنیاد ہے۔

سابق ساتھیوں کا کہنا ہے کہ چالکر کی کمپنیاں انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ قطر کو متعدد خدمات فراہم کرتی تھیں۔

ان کے سابق ساتھیوں نے بتایا کہ چالکر نے تقریباً پانچ سال تک سی آئی اے میں آپریشنز آفیسر کے طور پر کام کیا۔

آپریشنز افسران عام طور پر خفیہ کام کرتے ہیں اور امریکا کی طرف سے جاسوسی کے لیے افراد کو بھرتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سی آئی اے نے اس حوالے سے تبصرے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اپنے سابق افسران کے حوالے سے بات نہیں کرتا۔

سابق ساتھیوں کے مطابق سی آئی اے کے پس منظر کی وجہ سے چالکر قطری حکام کے لیے ایک پرکشش امیدوار تھے۔

مزید پڑھیں: فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کی تاریخوں کا اعلان

بیرون ملک کام کرنے والے سی آئی اے کے سابق ایجنٹس یا افسران ہمیشہ امریکی مفادات کے مطابق ہی کام نہیں کرتے جس کی ایک بڑی مثال چالکر ہیں کیونکہ 2022 ورلڈ کپ کی بولی کے لیے قطر کا سب سے بڑا حریف امریکا تھا اور امریکا کی جانب سے بولی لگانے والوں میں سابق صدر بل کلنٹن اور دیگر ممتاز شخصیات شامل تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں