’ملازمت کی درخواست کیلئے فیس کم کی جائے‘ بیروزگار افراد کا ٹوئٹر پر ٹرینڈ

اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2021
لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فیس میں کمی کا اعلان کرے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فیس میں کمی کا اعلان کرے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

سرکاری ملازمت کی درخواست کے لیے فیس کا بھاری چالان ادا کرنے والے افراد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جس کے بعد یہ معاملہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بن گیا۔

پاکستان میں 18 دسمبر کو ٹوئٹر پر(#ReduceJobChallansToRs100) یعنی ’ملازمت کی درخواست کے لیے چالان کی فیس 100 روپے تک محدود کی جائے‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

مذکورہ ٹرینڈ میں انگریزی اور اردو سمیت سندھی زبان میں ٹوئٹس کی گئیں، لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملازمت کی درخواست کے لیے نوجوانوں سے لی جانے والی بھاری فیس کو کم کرکے 100 روپے تک محدود کیا جائے۔

ٹرینڈ کے ذریعے لوگوں نے ملازمت کی درخواستوں کے چالان میں کمی کا مطالبہ کیا—اسکرین شاٹ
ٹرینڈ کے ذریعے لوگوں نے ملازمت کی درخواستوں کے چالان میں کمی کا مطالبہ کیا—اسکرین شاٹ

’ملازمت کی درخواست کے لیے فیس کم کی جائے‘ ٹرینڈ میں مرد و خواتین نے یکساں ٹوئٹس کیں اور زیادہ تر لوگوں نے نوکریوں کے لیے ٹیسٹ لینے والے اداروں کو بھاری فیس وصول کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

خالد حسین نامی صارف نے لکھا کہ ’ان گریجویٹ کرنے والے نوجوانوں کا سوچیں جو بڑی مشکل اور محنت سےاپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ادارے انہیں نوکری دینے کی لالچ میں بھاری فیسوں پر لوٹتے ہیں۔

’ملازمت کی درخواستوں کی فیس میں کمی‘ سے متعلق ٹرینڈ کو ٹاپ پر لانے کے لیے ٹک ٹاک اسٹار اقصیٰ کینجھر جمالی نے بھی اپنے مداحوں سے اپیل کی کہ وہ مذکورہ مسئلے پر آواز اٹھاکر حکومت کو اہم مسئلے کی جانب توجہ دینے پر مجبور کریں۔

صحافی ساگر سہندڑو نے اپنی ٹوئٹ میں ذاتی تجربہ بیان کیا اور لکھا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران انہوں نے مختلف محکموں میں ملازمت کی درخواستیں دیں، جن کے چالان اور تعلیمی اسناد کی فوٹوکاپیاں کروانے سمیت ٹیسٹ کے لیے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے انہوں نےاندازے کے مطابق 8 لاکھ روپے تک ضائع کردیے۔

لیاقت ملک نامی صارف لکھا کہ یہ مہم صرف سندھ کے لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے نوجوانوں کے لیے ہے لٰہذا اس مہم میں چاروں صوبوں کے نوجوانوں سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو حصہ لینا چاہیے۔

ایک صارف نے لکھا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جامشورو میں ملازمت کی ایک درخواست جمع کروائی، جس میں انہوں نے پانچ ہزار روپے تک فیس ادا کی جب کہ پچھلے سال ہی انہوں نے ایسی ہی ایک درخواست پر تین ہزار روپے ضائع کیے تھے۔

سسی سندھی نامی خاتون نے بھی آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کی جانب سے ایک ہی امیدوار سے میٹرک، انٹر اور گریجویشن کی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کے لیے الگ الگ درخواستیں دینے سمیت ان سے الگ الگ بھاری فیس وصول کرنے کا معاملہ بیان کیا۔

رابیل سیال نامی شخص نے لکھا کہ ’اداروں کے اخراجات اتنے نہیں جتنی چالان فیس لی جا رہی ہے، خدارا بیروزگاروں پر ظلم بند کرو‘۔

منور علی نامی صارف نے وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اپنی ٹوئٹ میں مینشن کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ملازمت کی درخواستوں کی مد میں بھاری چالان فیس کی وصولی کا نوٹس لیں، عوام اور خصوصی طور پر نوجوان نسل کو پریشانی اور بیروزگاری سے نجات دلائیں۔

خالد ہاشمانی نامی صارف نے لکھا کہ ’ایک تو بیروزگاری اور اوپر سے ہر ٹیسٹ کی فیس 500 سے اوپر، یہ ظلم کب تک چلے گا، نوکری کا ٹیسٹ مفت کیا جائے یا پھر زیادہ سے زیادہ چالان کی فیس سو روپے تک لائی جائے‘۔

فرزین علی نامی خاتون نے ملازمت کی درخواستوں پر بھاری چالان فیس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قصور وار قرار دیا اور لکھا کہ دونوں حکومتیں جوانوں کو لوٹنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہیں، انہوں نے دونوں حکومتوں سے نوجوانوں پر رحم کھانے کا مطالبہ کیا۔

۔

بعض افراد نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ ملازمت کی درخواستوں کے لیے اب آن لائن سسٹم متعارف کرائے، جس سے چالان کی فیس سے بھی بچا جا سکے گا اور دستاویزات کی کاپیاں اور انہیں دفاتر بھجوانے کے اخراجات بھی کم ہوں گے، اور ساتھ ہی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹیسٹ لینے والے اداروں کو خود معاوضہ فراہم کرکے امیدواروں سے مفت ٹیسٹ لے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں